اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس 30 روز میں نمٹانے کے فیصلے کے بعد منگل کو الیکشن کمیشن میں کیس کی سماعت ہوئی۔
تحریک انصاف کے وکیل سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ اپنے دلائل دیتے ہوئے انور منصور نے کہا کہ کمیشن میں اس وقت دو ارکان تعینات ہونے ہیں جس کی وجہ سے تین رکنی کمیشن مکمل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اعتراض کا مقصد سماعت رکوانا یا تاخیر کرنا نہیں ہے، الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن کے تمام ارکان کا ہونا ضروری ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 30 روز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، اس کا کیا کریں؟
انور منصور نے کہا کہ میں اپنے دلائل شروع کرتا ہوں، دلائل سے راہ فرار اختیار نہیں کرتا۔
اپنے دلائل میں انہوں نے پولیٹکل پارٹیز آرڈر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ کی اجازت ہے، ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈنگ دو الگ چیزیں ہیں، ممنوعہ فنڈنگ ملک کے اند سے بھی ہو سکتی ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل انور منصورنے کہا ’سکروٹنی کمیٹی کے ٹی او آرز غیر ملکی فنڈنگ تک محدود تھے، کمیٹی نے پاکستان اور انڈیا کے قوانین کا تقابلی جائزہ لیا لیکن انڈیا میں کوئی شخص دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا، جبکہ پاکستانی قوانین کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے بھی سیاسی جماعتوں کو فنڈ دے سکتے ہیں۔‘
انور منصور خان نے کمیشن کو بتایا کہ اکاؤنٹس کے معاملے پر معاون وکیل معاونت کریں گے جبکہ انہیں دلائل مکمل کرنے کے لیے تین روز درکار ہیں۔
انہوں نے کمیشن کے سامنے استدعا کی کہ ’20 اپریل سے دستیاب نہیں ہوں آئندہ ہفتے تک مہلت دے دیں تین روز میں دلائل مکمل کر لوں گا۔‘
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔
الیکشن کمیشن میں سماعت کے بعد تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات فرخ حبیب نے کہا کہ ’تحریک انصاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل میں جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کریں گے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی ساتھ ہی دیا جائے۔‘