بچوں پر بھی مارشل لا، بچے شرارتوں سے پاک اور معصوم بننے کی اداکاری کر کر کے تھک جاتے ہیں، صرف اتنی خاطر مدارت جتنی جیب اجازت دے
*عنبرین فیض احمد۔ریاض*
یہ ایک حقیقت ہے پاکستانی دنیا بھرمیں اپنی بہت ساری خصوصیات کی وجہ سے مانے جاتے ہیں ، ان میں ایک خصوصیت خاص طور پر مشہور ہے کہ وہ بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر جب بھی کوئی مہمان آجاتا ہے تو گھر میں خواہ اس کی کسی سے جان پہچان ہو یا نہیں ، اپنی خوش اخلاقی سے اسے اپنا بنا لینے میں دیر نہیں لگاتے۔ اپنی عادت سے مجبور ہوکر بہت جلد اس سے پہچان بنا لیتے ہیں اور پھر اس مہمان کے آگے پیچھے پھرنے لگتے ہیں یعنی اس کو وی آئی پی حیثیت دے دیتے ہیں۔ اس کے سارے خاندان والوں کی خیر و عافیت 5 منٹ کے اندر معلوم کر ڈالتے ہیں۔ جب اس کی سواری دروازے پر اترتی ہے تو یوں سمجھ لیں کہ مہمان کو فائیو اسٹار ہوٹل جیسی سہولتیں میسر ہوجاتی ہیں ۔
جب تک مہمان کا مقام غریب خانے میں رہتا ہے نجانے کیا کیا بننا پڑتا ہے یعنی بیرا، باورچی، ملازم اور سب سے بڑھ کر بااخلاق میزبان۔ پھر خوش اخلاقی دیکھ کر جو جانے والا مہمان ہے وہ بھی اپنا ارادہ ملتوی کردیتا ہے اور یوں گھر مدتوں سرائے خانہ بنا رہتا ہے۔ ہم تو اس پر عمل کرتے کہ مہمان کے بھی بہت سے حقوق ہوتے ہیں ، کیوں نہ ہوں ظاہر ہے مہمان کے بھی حقوق پڑوسی کے برابر ہوتے ہیں ۔ مہمان اپنے ساتھ اللہ کی رحمت جو لاتا ہے جس سے گھر والوں کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہمانوں کو دیکھ کر منہ نہیں بنانا چاہئے۔
اپنی حیثیت سے بڑھ کر مہمان کی خدمت کرنا چاہئے پھر اس راز سے تو ہر کوئی واقف ہے لہذا مہمان گھروں میں رزق کی کنجی بن کر بڑے ہی آرام سے جتنا دن چاہتا ہے قیام کرلیتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ قیام کرتے کرتے صاحب بہادراتنے بے تکلف ہوجاتے ہیں کہ میزبان کا جوتا بلااجازت پاؤں میں ڈال لیتے ہیں۔ کبھی اسی بے تکلفی میں صابن، تولیہ، گنگھی، ٹوتھ پیسٹ یہاں تک کہ میزبان کے کپڑے تک استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔یوں سمجھئے کہ جتنے دن قیام ہوتا ہے تمام چیزیں مہمان کی ہی ہوجاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ چیزیں غائب بھی ہوجاتی ہیں اور پھر جب تک اس مہمان کا قیام ہوتا ہے اپنی عزت کابھرم بھی رکھنا ہوتا ہے لہذا بچوں پر بھی مارشل لا نافذ کرنا پڑتا ہے۔ بیچارے بچے شرارتوں سے پاک اور معصوم بننے کی اداکاری کرتے ہیں آخر وہ بچے بھی اداکاری کرتے تھک جاتے ہیں۔ پریشان ہوکر پوچھتے ہیں کہ مہمان کب تک اپنے گھر جائیں گے؟ بہت مہذب اور تمیزدار بچوں کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں یعنی پورے گھر کا نقشہ ہی تبدیل ہوجاتا ہے ۔ مہمانوں کے قیام کے دوران بچوں کی بھی ٹھیک ٹھاک اداکاری کی مشق ہوجاتی ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک فرد کے بجائے پورا خاندان اچانک ہی نازل ہوجاتا ہے تو یوںمحسوس ہوتا ہے جیسے اچانک میزبان کیلئے بہت مشکل امتحانی پرچہ حل کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں مروت کا مارا میزبان بیچارہ اپنی خوش اخلاقی دکھانے پر مجبور ہوجاتا ہے پھر میزبان کو سستی چھوڑ کر خود میں چستی لانی پڑتی ہے۔ زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر سجانے کی ناکام کوشش کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر دروازہ کھولنے میں ذرا دیر ہوجائے تو مہمان چراغ پا ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیںکہ بھری گرمی میں کتنی دیر لگا دی دروازہ کھولنے میں ۔ یعنی شکایت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہوتا کہ کیا کررہے تھے کہ گھنٹی کی آواز تم سن نہیں رہے تھے۔ کیا ہاتھی گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے؟ میزبان بیچارہ شرمندہ سا کھڑا مہمان کی باتیں سن رہا ہوتاہے کیونکہ آخر کار کل کلاں کو خاندان میں ایک کی چار لگاکر بات پھیل بھی سکتی ہے لہذا ناک بھی کٹ سکتی ہے۔ یہاں پر اپنی ناک کٹنے کا بھی سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ مہمان کی خاطر تواضح میں گھر والوں کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اللہ کی پناہ۔
گرمی کا موسم ہوتا ہے تو فوراً سے پہلے گھر کے کسی بچے کو بھیج کر گھر کے سامنے والی دکا ن سے ٹھنڈی بوتلوں سے تواضع کی جاتی ہے او رغسل خانے میں نئی صابن کی ٹکیہ اور سفید تولیہ کا انتظام بھی کردیا جاتا ہے۔ مہمانوں کو اچھے سے اچھا کھلا یا جاتا ہے۔ سب سے اعلیٰ ترین کمرے میں ا ن کی رہائش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اعلیٰ ترین بستر انہیں دیا جاتا ہے جس پر سفید براق چادر بچھائی جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ میزبان کابس نہ چلتا کہ مہمان نوازی میں لوری سنانے کی کسر باقی رہ جاتی ہے۔ اگر گھر میں جگہ کی تنگی ہو تو ایک ہی کمرے میں سارے گھر کے افراد براجمان ہوتے جو کسی ہنگامی حالت کا نقشہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ دو تین افراد سمٹ سمٹا کر بلیوں کی طرح سو جایا کرتے ہیں یعنی ساری رات لاتوں اور گھونسوں کی بارش جاری رہتی ہے۔ کبھی کمبل کی کھینچ تان ہوتی ہے تو کبھی کسی کی کہنی کسی کی پسلی میں گھسی ہوتی ہے۔ پوری رات ایک دھما چوکڑی مچی رہتی ہے لیکن مہمان صاحب اپنے کمرے میں بڑے آرام سے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ گھر کے افراد پر ان کی آمد سے کیا افتاد گزر رہی ہے ، ان کی بلا سے۔ کھانے میں مرغی اور انڈے کا حلوہ پکنا تو بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ خاطر داری مکمل نہیں ہوتی۔
باقی گھر والے مہمان کے کھانے کے بعد کھاناکھاتے ہیں تاکہ مہمان کو کم نہ پڑ جائے۔ بھلے میزبان کو شوربے میں روٹی کیوں نہ ڈبو کر کھانا پڑے۔ انڈے کا حلوہ تو صرف اور صرف مہمانوں کے ہی حصے میں آتا ہے۔ ایسے میں کسی مہمان کا دل چاہے گا گھر سے جانے کا۔ کبھی کبھی تو ایسے مہمان بھی ہوتے ہیں جو گھر سے جانے کا نام نہیں لیتے۔ وقت نے بڑی تیزی کے ساتھ کروٹ بدلی ہے اور یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ مہمان ہوتا تو ہے رحمت مگر انسان کو اس اس کی اتنی ہی خاطر کرنا چاہئے جتنی اس کی جیب اجازت دیتی ہے نہ کہ مہمان کے جانے کے بعد مقروض ہو صرف اس لئے کہ کہیں خاندان میں ناک نہ کٹ جائے۔