ذرائع ابلاغ نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ یحییٰ سنوار کو رمضان کے دوران کی گئی تقریر اور اسرائیل کو دی جانے والی دھمکیوں کے بعد قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
فلسطینیوں کے حملوں کے جواب میں غزہ میں فوجی آپریشن کرنے کی اسرائیلی دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
فلسطینیوں کے حملوں کا آغاز رمضان کے دوران ہوا جن میں سے آخری آپریشن میں تل ابیب کے مشرق میں واقع ایلاد میں تین اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیر مواصلات یوز ہینڈل نے کہا ہے کہ ’گیلاد شالت معاہدے کے دوران سنوار کی جیل سے رہائی ایک غلطی تھی۔‘
اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے اقدامات کو دیکھ رہے ہیں اور ہم اپنے فیصلے کریں گے، اور ہم یہ صرف بند کمروں میں کریں گے۔‘
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے سنیچر کو سنوار کو قتل کرنے کے ارادے کے خلاف خبردار کیا تھا۔
ابو عبیدہ نے کہا کہ ’بزدل اسرائیلی قبضے کی طرف سے یحییٰ سنوار یا مزاحمتی لیڈروں میں سے کسی کے ممکنہ قتل کی دھمکیاں خطے میں بھونچال اور ایک بے مثال ردعمل کا اشارہ ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم صیہونی حکومت کی تاریخ میں ایک نیا تباہ کن باب رقم کریں گے۔‘
القسام کے بیان کے بعد اسرائیلی سیکورٹی حکام نے بتایا کہ ان کی فوج نے ملک کی سیاسی قیادت کو اس وقت حماس کے رہنما کو قتل نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔
فلسطینی اخبار القدس نے بھی نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اسرائیل نے ثالثوں کے ذریعے فلسطینی دھڑوں کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ کوئی قاتلانہ کارروائی نہیں کرے گا اور غزہ میں کشیدگی میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔‘
2008 سے اب تک غزہ کی پٹی چار جنگوں کا مشاہدہ کر چکی ہے جن میں سے آخری جنگ گزشتہ سال مئی میں ہوئی تھی اور یہ 11 دن تک جاری رہی۔
سنوار نے اپنی آخری عوامی تقریر میں کہا تھا کہ ’ہمیں آگے بڑھنے، سرحدوں کو توڑنے اور اس تلخ حقیقت کو بدلنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جس میں ہماری قوم رہ رہی ہے۔ ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ تلوار کے استعمال سے دریغ نہیں کریں گے اور ہم اپنے لوگوں کا دفاع کریں گے۔‘
فلسطینی ذرائع نے عرب نیوز کو بتایا کہ غزہ کی پٹی میں کسی بھی قسم کی کشیدگی کو روکنے کے لیے مصر کے ساتھ گزشتہ مارچ سے تقریباً روزانہ مسلسل رابطے کیے جا رہے ہیں۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مصریوں کی طرف سے کشیدگی کو روکنے کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہ کوششیں اب تک آخری عرصے کے دوران متعدد مواقع پر کامیاب ہو چکی ہیں۔ وہ امریکی حمایت سے فلسطینی دھڑوں اور اسرائیلی حکومت کے درمیان پیغامات دے رہے ہیں۔‘
اسرائیلی امور کے فلسطینی ماہر مصطفی ابراہیم نے وضاحت کی کہ اسرائیل میں اشتعال انگیزی کی قیادت اسرائیلی صحافیوں کی ایک بڑی اکثریت کر رہی ہے۔