سری لنکا میں غیرمعمولی معاشی بحران کی وجوہات کیا ہیں؟
سری لنکا میں غیرمعمولی معاشی بحران کی وجوہات کیا ہیں؟
بدھ 11 مئی 2022 17:38
کئی ہفتوں سے حکومت کے خلاف جاری مظاہرے حال ہی میں پرتشدد ہو گئے۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
سری لنکا کو ایک غیر معمولی معاشی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے حکومت مسائل کے بھنور میں پھنس گئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والے ملک کو تیزی سے کم ہو رہے زرمبادلہ کے دخائز اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے عوام کے لیے اشیائے ضروریہ درآمد کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
ان وجوہات کی وجہ کئی ہفتوں تک حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے جو حال ہی میں پرتشدد ہو گئے، جس کے بعد وزیراعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔
عوام کے زیادہ تر غصے کا محور صدر گوتابایا راجاپکشے اور ان کے بھائی اور سابق وزیراعظم مہندا راجاپکشے ہیں، جن پر ناقدین ملک کو معاشی بحران میں مبتلا کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
مظاہروں کا آغاز کیسے ہوا؟
کئی مہینوں سے سری لنکن شہری اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے قطاروں میں لگ رہے تھے کیونکہ زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے درآمدی خوراک، ادویات اور فیول کی قلت ہو گئی تھی۔ تیل کی کمی کی وجہ سے عوام کو لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا تھا۔
کورونا وبا اور روس یوکرین تنازع نے بھی حالات کو بدتر بنا دیا لیکن ممکنہ معاشی بحران کے حوالے سے انتباہ بہت پہلے سے کیا جا رہا تھا۔
سنہ 2019 میں صدر گوتابایا راجاپکشے ایسٹر پر چرچ اور ہوٹلوں میں ہونے والے خود کش دھماکوں کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔
ان دھماکوں میں 290 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا تھا، جو کہ زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
گوتابایا راجاپکشے نے سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔
حکومت کو اپنے محصولات میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ بڑے انفراسٹکچر منصوبوں کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ کچھ قرضوں کے لیے چین نے مالی اعانت فراہم کی تھی، لیکن اپنی صدارت کے چند ہی دنوں میں راجاپکشے نے سری لنکا کی تاریخ میں ٹیکسوں میں سب سے بڑی چھوٹ دے دی۔
اس اقدام پر عالمی منڈی کی جانب سے فوراً سزا دی گئی۔ قرض دہندگان نے سری لنکا کی درجہ بندی کم کر دی اور اسے مزید رقم ادھار لینے سے روک دیا۔ اس کے فوراً بعد کورونا وبا نے ملک کی معیشت کو متاثر کیا اور قرضوں میں اضافے کے ساتھ ہی سیاحت کا شعبہ پھر بند ہو گیا۔
پھر گزشتہ اپریل میں راجاپکشے نے مناسب منصوبہ بندی کے بغیر نامیاتی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے کیمیائی کھادوں کی درآمد پر اچانک پابندی کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان نے کسانوں کو حیران اور چاول کی فصلوں کو تباہ کر دیا۔ جس کے بعد اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔
روس اور یوکرین کی جنگ نے بھی عالمی مارکیٹ میں اجناس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، جس سے درآمد اور بہت مشکل ہو گئی۔
اس کے علاوہ غیرملکی زرمبادلہ کے دخائز میں تیزی سے کمی کی وجہ سے حکومت نے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی بھی روک لی۔
راجاپکشے کون ہیں؟
ملک گیر مظاہروں میں راجاپکشے بھائیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو ایک نہایت طاقتور سیاسی گھرانہ ہے۔
گوتابایا اور مہندا ملک کی سنہالی اکثریت کی نظروں میں ہیرو کا درجہ رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے 2009 میں 30 سال سے تاملوں کے ساتھ جاری خانہ جنگی کا خاتمہ کیا تھا۔
مہندا راجاپکشے 2015 تک ملک کے صدر رہے اور اپوزیشن سے شکست کے بعد اقتدار سے باہر ہوئے۔
2019 کے ایسٹر بم دھماکوں کے بعد یہ خاندان گوٹابایا کے ماتحت اقتدار میں واپس آیا، جنہوں نے صدر بننے کے لیے ایک قوم پرست مہم چلائی اور کامیابی حاصل کی۔
پیر کو مہندا راجاپکشے کا استعفیٰ مظاہرین کے لیے ایک جزوی فتح ہے۔ جبکہ صدر پر بھی مستعفی ہونے کے لیے دباو بڑھ رہا ہے۔
آگے کیا ہو گا؟
صدر گوتابایا راجاپکشے اس وقت وزیراعظم اور کابینہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ انہیں نئے وزیراعظم کے لیے پارلیمنٹ سے ایک نیا ممبر منتخب کرنا ہے اور کابینہ تشکیل دینی ہے۔
تاہم ان کے انتخاب کو 225 ارکان اسمبلی پر مشتمل پارلیمان کی اکثریت درکار ہو گی۔ ابھی تک یہ غیر واضح ہے کہ کیا ان کے پاس ابھی بھی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے یا نہیں۔
صدر متحدہ حکومت بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن اپوزیشن کے ارکان کو اس میں شامل ہونے پر قائل کرنا مشکل ہو گا۔
اگر وزیراعظم نہ ہونے کے باوجود صدر استعفیٰ دے دیتا ہے تو پارلیمنٹ کے سپیکر ایک ماہ کے لیے عبوری صدر بن جائیں گے، اس دوران پارلیمنٹ کو صدر کے لیے کسی رکن کا انتخاب کرنا ہے جب تک کہ انتخابات نہ ہو جائیں۔