صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے 2-3 کی اکثریت سے مختصر فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب نے فیصلے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’انحراف پر نااہلی کے لیے قانون سازی کا یہ ہی مناسب وقت ہے۔‘
’آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جا سکتا، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کو سیاسی میدان میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کوئی بھی رکن ووٹ ڈالتا ہے تو وہ شمار نہیں ہوگا۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل گذشتہ روز کے عدالتی ہدایت کی روشنی میں ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے تحریری گزارشات جمع کرائیں۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے اپنے دلائل میں کہا کہ انھیں صدارت ریفرنس کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی ہدایات نہیں ملیں تاہم وہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ ہر رائے مانگی جاسکتی ہے۔‘ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا ارٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا۔ عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو رائے کے بغیر واپس کر دیا جائے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا۔ بطور اٹارنی جنرل اپ اپنا موقف لے سکتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’کیا یہ حکومت کاموقف ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میرا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے۔ سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کے لیے ان کے وکلا موجود ہیں۔ صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا۔ قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں۔ آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔ کیا اپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملیں۔ اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آچکا ہے۔ اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا جو پہلے تھا۔ میں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر دو فریقین سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریق سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں۔ صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے۔ ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ تکنیکی نہیں آئینی معاملہ ہے۔ عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں لیکن سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کےحقوق کو بھی دیکھنا ہے۔ انحراف پر رکن کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئیں گی۔ صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کارروائی پر اثر پڑے گا۔ آرٹیکل 63 اے کے انحراف سے رکن خودبخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا۔ انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے۔ سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
صدر مملکت نے کیا رائے مانگی تھی؟
صدر کی جانب سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے چار سوالات پر رائے مانگی گئی تھی۔ ریفرنس میں پوچھا گیا کہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ دے تو کیا اسے رکن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی؟ اسے ڈی سیٹ نہیں کیا جا سکتا؟
سپریم کورٹ سے یہ رائے مانگی گئی کہ کیا ایسے رکن جو پارٹی پالیسی سے انحراف کریں اور پالیسی کے خلاف ووٹ دیں تو کیا ان کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا؟
سپریم کورٹ سے پوچھا گیا کہ کیا جو وفاداری تبدیل کرتے ہوئے رکن پارٹی پالیسی کے خلاف جائے اور ثابت ہو کہ اس نے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے تو کیا اسے رکن کو تاحیات نا اہل قرار دیا جائے گا؟
چوتھے سوال میں عدالت سے رائے مانگی گئی ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنے کے لیے موجودہ آئینی ڈھانچے میں کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے فلور کراسنگ کو روکا جاسکے۔