Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی ریفرنس: ’اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا‘

فاروق نائیک کا کہنا ہے 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے ججز نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق ریمارکس دیے ہیں کہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔
’اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا۔ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ 14 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا۔ 14 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کرکے پارٹی سربراہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا۔ پھر 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا اور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا۔ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 63 اے میں چار مواقع پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم ضروری نہیں جو حاصل کرنا ہے وہ آرٹیکل 63 اے سے حاصل کریں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’پارٹی ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے۔
’حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔ کینسر یہ ہوتا ہے کہ جسم کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پارٹی سے انحراف کو بھی کینسر کہا گیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’پارٹی سے انحراف پر نااہلی نہیں ہوتی، بے وفائی سخت لفظ ہے اس کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص بدیانتی پر نا اہل ہو جائے تو وہ اگلے الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ’کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی؟ کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی؟ جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسیوں کا پابند ہے۔‘
’ہر چیز ہر جماعت کے کچھ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔ کوالیفکیشن اور ڈس کوالیفکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں۔ اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟
فاروق نائیک نے کہا کہ ’اگر یہ مان بھی لیں کہ منحرف رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا لیکن نااہل نہیں۔ ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے۔ انحراف کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تو پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر کوئی شخص بدیانتی پر نا اہل ہو جائے تو وہ اگلے الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ’یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائیل کے بغیر نہیں دی جا سکتی۔ بطور آزاد امیدوار کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے تو جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت سپریم کورٹ اپیل میں کیا فیصلہ کر سکتی ہے۔(فوٹو: سپریم کورٹ) 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’پارلیمانی جمہوریت میں آزاد اراکین ہونے ہی نہیں چاہئیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آرٹیکل 63 اے کے تحت سپریم کورٹ اپیل میں کیا فیصلہ کر سکتی ہے۔‘
’ایک سوال ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دیا گیا یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ پارٹی سے انحراف ہوا۔ اگر پالیسی کے خلاف ووٹ دے دیا تو عدالت کسی چیز کا تعین کرے گی؟
رضا ربانی نے کہا کہ کل عدالت کے ان سوالات کے جوابات دوں گا۔ سپریم کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

شیئر: