Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سری نگر ہائی وے پر احتجاج پی ٹی آئی کے لیے کتنا آسان ہوگا؟

اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے وفاقی دارالحکومت کی مصروف اور اہم ترین شاہراہ اس ہفتے ایک بار پھر احتجاج کا مرکز بننے جا رہی ہے جہاں 25 مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کا انعقاد کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں
یہ پہلا موقع ہے کہ پی ٹی آئی نے احتجاج اور دھرنے کے لیے ریڈ زون سے منسلک ڈی چوک کے بجائے قدرے دور کشادہ سڑک کا انتخاب کیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ تین سالوں میں دو دفعہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دو مرتبہ سری نگر ہائی وے پر احتجاج کر چکے ہیں اورنومبر 2019 میں ان کا دھرنا کئی دن جاری رہا تھا۔
سری نگر ہائی وے اسلام آباد کی ’لائف لائن‘
سری نگر ہائی وے جو کبھی ’کشمیر ہائی وے‘ کہلاتی تھی اسلام آباد کو ایئرپورٹ ٹاور پشاور کے علاوہ کشمیر سے ملاتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں بننے والی کشمیر ہائی وے کو اسلام آباد شہر کی منصوبہ بندی کرنے والے ماہرین نے شہر کی ’لائف لائن‘ قرار دیا تھا۔
سی ڈی اے حکام کے مطابق 18 کلومیٹر طویل سڑک اسلام آباد کے ریڈزون میں واقع سرینا ہوٹل سے شروع ہو کر جی ٹی روڈ این فائیو تک جاتی ہے۔ یہ اسلام آباد شہر کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے علاوہ موٹروے کے ذریعے لاہور اور پشاور سے ملاتی ہے اور شہر کی سب سے اہم شاہراہ تصور کی جاتی ہے۔
2007 سے اس کی توسیع کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جبکہ حال ہی میں اسے سگنل فری بنا کر اس پر محفوظ یوٹرن بنائے گئے ہیں۔
اگست 2020 میں انڈین حکومت کی جانب سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حثییت ختم کرنے کے اقدام کے جواب میں پاکستان کی حکومت نے اس کا نام ’سری نگر ہائی وے‘ رکھ دیا تھا۔
بورڈ پر اسلام آباد سے سری نگر کا فاصلہ تین سو کلومیٹر درج ہے اس کے علاوہ اسلام آباد سے مظفرآباد اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے دوسرے علاقوں تک کا فاصلہ بھی اس میں دکھایا گیا ہے۔
 یہ مرکزی شاہراہ دن رات مصروف رہتی ہے۔ اس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ریڈ زون واقع ہے جہاں پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور سپریم کورٹ اور دیگر اہم ترین دفاتر موجود ہیں۔

2007 سے سری نگر ہائی وے کی توسیع کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جبکہ حال ہی میں اسے سگنل فری بنا کر اس پر محفوظ یوٹرن بنائے گئے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

پی ٹی آئی احتجاج کی صورت میں اسلام آباد میں نظام زندگی پر اثر

سری نگر ہائی وے اسلام آباد کی اہم ترین شاہراہ ہونے کے باعث شہر میں آمدورفت کا اہم ذریعہ ہے۔ اسلام آباد کے جی سکس سے لے کر جی 14 اور ان سے منسلک ایف اور ای سیکٹرز کے رہائشی سری نگر ہائی وے بند ہونے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم جی الیون تک سیکٹرز میں سروس روڈ موجود ہے جس سے متبادل راستے فراہم ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سری نگر ہائی وے پر احتجاج سے اسلام آباد میں نظام زندگی متاثر تو ضرور ہوگا مگر مکمل طور پر معطل نہیں ہوگا کیونکہ اگر جی ٹی روڈ سے جی 11 تک راستہ کھلا رہے تو سروس روڈ کے ذریعے متبادل راستے دستیاب رہیں گے۔
تاہم سری نگر ہائی وے کی بندش سے ایئرپورٹ تک میٹرو سروس بھی متاثر اور بند ہونے کا خدشہ ہے اور ہفتے میں کئی دن کھلنے والا اتوار بازار بھی بند رہنے کا امکان ہے۔

سری نگر ہائی وے پر احتجاج پی ٹی آئی کے لیے چیلنج؟

جہاں نئی اتحادی حکومت کے لیے معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے احتجاج سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے وہیں سری نگر ہائی وے پر شارٹ نوٹس پر احتجاج کو کامیاب بنانا عمران خان کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔
زیرو پوائنٹ سے جی ٹی روڈ تک پانچ رویہ سڑک کو مظاہرین سے بھرنا آسان کام نہیں ہوگا اور کم شرکا ہونے کی صورت میں تعداد واضح ہو جائے گی۔

ماہرین کے مطابق سری نگر ہائی وے پر احتجاج سے اسلام آباد میں نظام زندگی متاثر تو ضرور ہوگا مگر مکمل طور پر معطل نہیں ہوگا (فوٹو: اردو نیوز)

ابھی تک عمران خان نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کے لیے خاص مقام کا تعین نہیں کیا لیکن غالب خیال یہی ہے کہ کراچی کمپنی سے منسلک جی نائن کے قریب دھرنا منعقد کیا جائے گا۔
اس صورت میں دھرنے کے شرکا کے لیے جی نائن مرکز سے اشیائے ضرورت خریدنا آسان ہوگا تاہم یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سری نگر ہائی وے لاکھوں یا ہزاروں کے مجمع کے لیے دیگر ضروریات پوری کر سکے گی اور سخت گرم موسم میں یہاں  طویل مدت تک رہنا کتنا آسان ہو گا؟
اتنی بڑی تعداد کے لیے ٹوائلٹس اور دیگر ضروریات کے لیے اہتمام کرنا ایک چیلنج ہوگا۔
اتوار کو پشاور میں پارٹی کے کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ وہ پشاور سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے پر پہنچیں گے۔
’25 تاریخ کو میں آپ کو اسلام آباد میں دوپہر تین بجے سری نگر ہائی وے پر ملوں گا۔ خواتین بھی ہمارے ساتھ نکلیں۔ میں چاہتا ہوں ہر شعبے کے لوگ نکلیں۔‘
عمران خان کے بقول ’ہم نے نہ جیل دیکھنی نہ کچھ اور۔ ہم اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ہم کسی صورت ان کو تسلیم نہیں کریں گے۔ جتنی دیر اسلام آباد رہنا پڑا رہیں گے۔ ہمارا مطالبہ اسمبلیوں کی تحلیل،  الیکشن کی تاریخ اور صاف و شفاف الیکشن ہے۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی سن لے اگر کوئی غلط کارروائی کی تو ہم ایکشن لیں گے۔ ’فوج نے کہا ہے کہ وہ نیوٹرل ہے تو اب اس معاملے میں بھی نیوٹرل رہے۔‘

شیئر: