Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لانگ مارچ اور دھرنے حکومت گرانے میں کامیاب ہوئے؟

کوئی بھی لانگ مارچ اور دھرنا بظاہر اپنے مقاصد کے مکمل حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حکومت کے خاتمے اور ملک میں عام انتخابات کے مطالبے کے لیے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ 
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب اپنے مطالبات کے لیے کسی سیاسی جماعت نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہو۔
اس سے قبل بھی متعدد لانگ مارچ اور دھرنے ہو چکے ہیں، تاہم کوئی بھی لانگ مارچ اور دھرنا بظاہر اپنے مقاصد کے مکمل حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ 
پاکستان کی سیاسی تاریخ احتجاج، جلسوں، دھرنوں اور لانگ مارچ سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ عشروں میں اس میں نہ صرف بہت حد تک اضافہ بھی ہوا بلکہ یہ غیر معمولی حد تک طویل بھی ہو جاتے ہیں۔

لانگ مارچ کی اصطلاح

لانگ مارچ کی اصطلاح چین کی تاریخی جدوجہد سے لی گئی ہے جو جدید اور ترقی یافتہ چین کی بنیاد بنا تھا۔
تاریخ میں ضرب المثل بننے والا لانگ مارچ اور دنیا کی سب سے بڑی انقلابی مہم کمیونسٹ پارٹی چین نے شروع کی تھی، جو ماؤزے تنگ اور چواین لائی کے زیرقیادت نیشلسٹ پارٹی کے خلاف تھا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ کئی لانگ مارچ تھے جو 1930 سے 1934 تک جاری رہے تاہم آخری لانگ مارچ اکتوبر 1934 سے اکتوبر 1935 تک رہا۔ اس میں کمیونسٹ لیڈروں نے ایک اندازے کے مطابق 370 دنوں میں نو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔

تاریخ میں ضرب المثل بننے والا لانگ مارچ کمیونسٹ پارٹی چین نے شروع کیا تھا۔ (فوٹو: ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ)

پاکستان میں لانگ مارچ کی تاریخ

پاکستانی سیاست میں سیاسی تحریکوں کا سلسلہ اگرچہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق کے دور میں اپنے عروج پر رہا اور کئی طرح کی تحریکیں چلیں۔ تاہم لانگ مارچ کا سلسلہ 90 کی دہائی میں شروع ہوا۔ 
نومبر 1990 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں حزب اختلاف اتحاد پی ڈی اے نے کئی الزامات لگاتے ہوئے فوری طور پر حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔
بعدازاں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس بھی اس لانگ مارچ کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے اس کا حصہ بن گیا۔ 
18 نومبر 1992 کو ملک بھر سے آئے ہوئے تمام مظاہرین کو راولپنڈی لیاقت باغ سے پارلیمنٹ پہنچنا تھا۔
بے نظیر بھٹو تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے لیاقت باغ پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جہاں بے نظیر بھٹو سمیت کئی مرکزی رہنماوں گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
جولائی 1993 کے دوسرے ہفتے میں میں جب صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان شدید اختلافات کے باعث امور مملکت متاثر تھے۔اس موقع پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا، تاہم اس کی ضرورت پیش نہ آ سکی کیونکہ اس کے بعد دونوں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
1996 میں بے نظیر حکومت کے خلاف جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔

نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں حزب اختلاف اتحاد نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت نے تمام راستے بند کرتے ہوئے راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع کر دیں اور آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔ قاضی حسین احمد بھی لاٹھی چارج کی زد میں آئے تاہم بعد ازاں وہ کارکنان کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں فوری طور پر تو بے نظیر حکومت کو کچھ نہ ہوا تاہم کہا جاتا ہے کہ بے نظیر حکومت کے گرنے میں اس دھرنے کا کلیدی کردار تھا۔ 
سنہ 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تو ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع ہو گئی جس کی قیادت وکلا کر رہے تھے۔
سنہ 2007 کی ایمرجنسی کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت کئی سینیئر ججوں کو پی سی او حلف نہ اٹھانے پر سبکدوش کر دیا گیا تھا جن کی بحالی کے لیے مسلسل تحریک جاری تھی۔
بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے لیکن ججوں کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔
ان حالات میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلا انجمنوں کی جانب سے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی لانگ مارچ کیا گیا۔
اس لانگ مارچ کو ن لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
10 جون سے مارچ کے شرکا نے سفر کا آغاز کیا۔ امکان تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیں گے۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلا انجمنوں کی جانب سے احتجاجی لانگ مارچ کیا گیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پی پی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اجتماع کی اجازت دے دی تھی۔ یہ احتجاج مکمل پرامن رہا اور 14جون کو جب تمام تقاریر مکمل ہو گئیں تو اعتزاز احسن نے اچانک دھرنا نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
اس کے تقریباً نو ماہ بعد جب پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی تاریخ ریٹائرمنٹ قریب تھی۔
ایسے میں سابق صدر پرویز مشرف کے جانب سے قریباً ڈیڑھ برس قبل برطرف کیے گئے چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت دیگر ججوں کی بحالی کے لیے 12 مارچ 2009 کو احتجاجی لانگ مارچ کا آغاز ہوا، جس میں اسلام آباد پہنچ کر پرامن دھرنے کا پروگرام شامل تھا۔
وکلا کے علاوہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد نے ملک کے چاروں جانب سے اسلام آباد کی جانب سفر کا آغاز کیا۔
سرکاری طور پر 144 کا نفاذ تھا اور حفاظتی اقدام کے طور پر جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد میں کنٹینر لگا دیے گئے تھے۔
یہ لانگ مارچ جب گوجرانوالہ پہنچ تو اسے روک دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے چیف جسٹس کی بحالی کا فیصلہ کر لیا تھا اور وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی ویژن پر براہ راست قوم سے خطاب میں اس کا اعلان کیا۔
جس کے ساتھ ہی وکلا اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہ لانگ مارچ کامیابی سے اپنے اختتام پر پہنچا۔

طاہرالقادری کے زیرقیادت تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کا لانگ مارچ 16 اگست 2014 کو اسلام آباد پہنچا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد 22 مارچ 2009 کو افتخار چوہدری پھر چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے۔ یہ کسی بھی لانگ مارچ کے نتیجے میں حاصل کی جانے والی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ 
پی پی پی اپنا دور حکومت مکمل کرنے کے قریب تھی کہ 13 جنوری 2013 کو منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کے ہمراہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔
ان کے پروگرام میں اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنا شامل تھا۔
ان کا کارواں جی ٹی روڈ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا تھا۔ انہیں سرکاری طور پر صدر اور وزیراعظم درجے کی سکیورٹی فراہم کی گئی۔
14 جنوری کو لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچے اور تین دن سخت سردی میں دھرنے دینے کے بعد 17 جنوری کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر پہنچنے کے بعد یہ مارچ اختتام پذیر ہوا تھا۔
اعلامیہ میں حکومتی اتحاد کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، مخدوم امین فہیم، سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، افراسیاب خٹک، اور سینیٹر عباس آفریدی جبکہ منہاج القران کے ڈاکٹر طاہرالقادی نے دستخط کیے۔
اس اعلامیے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی دستخط کیے تھے۔
بعدازاں یہ معاہدہ بھی وقتی طور پر احتجاج کے خاتمے کا ایک بہانہ ہی ثابت ہوا تھا۔
سنہ 2014 میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا ڈیڑھ سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ تحریک منہاج القرآن نے ماڈل ٹاؤن واقعے اور پاکستان تحریک انصاف نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور دھرنے کا فیصلہ کیا۔

تحریک انصاف کا لانگ مارچ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فوری طور ختم کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

طاہرالقادری کے زیرقیادت تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کا لانگ مارچ 16 اگست کو اسلام آباد پہنچا۔
طاہرالقادری 19 اگست کو اپنے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد کے ریڈزون میں داخل ہو کر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔
انہوں نے تقریباً 68 دن دھرنا دینے کے بعد 21 اکتوبر کو اس کے خاتمے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
قومی اسمبلی کی تیسری بڑی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت رکھنے والی تحریک انصاف نے اپنے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد لانگ مارچ اور وہاں پہنچ کر دھرنے کا فیصلہ کیا۔
19 اگست سے ریڈ زون میں جاری یہ احتجاجی دھرنا قریباً 123 دن جاری رہنے کے بعد 16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فوری طور ختم کر دیا گیا تھا۔
اس دھرنے کے اختتام پر حکومت اور تحریک انصاف کے دوران انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔
کمیشن نے بعدازاں قرار دیا کہ 2013 کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔
یوں ملکی تاریخ کے طویل ترین احتجاج اور دھرنے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف اپنا اصل مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ 
پہلے مسلم لیگ ن اور بعدازاں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ملک کی مذہبی جماعت تحریک لبیک لاہور سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچتی رہی اور فیض آباد کے مقام پر ڈیرے جمائے رکھے۔ 

پہلے مسلم لیگ ن اور پھر پی ٹی آئی کے دور میں ملک کی مذہبی جماعت تحریک لبیک لاہور سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچتی رہی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے پہلے دھرنے کے نتیجے میں وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا جبکہ تحریک انصاف کے دور میں معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کی حامی بھری۔ تاہم بعد میں اس معاہدے پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔
اس معاملے پر بھی لانگ مارچ کیا گیا جسے وزیر آباد روک لیا گیا۔ جو مذاکرات کی کامیابی پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ 
سنہ 2019 میں جمعیت علمائے اسلام ف نے کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ شروع کیا، جو کئی روز تک سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ 
اسلام آباد کی طرف آخری تین لانگ مارچ موجودہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے رواں سال فروری اور مارچ کے مہینے میں کیے۔
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ کراچی سے چل کر 10 روز بعد آٹھ مارچ کو اسلام آباد پہنچا۔
دوسری جانب جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن کے الگ الگ مارچ لاہور، کراچی اور کوئٹہ سے چل کر اسلام آباد پہنچے اور ایک جلسہ عام کے بعد ختم ہوئے۔

شیئر: