جب سرنگ کے کنارے پر پہنچے تو انگشت بدنداں دیکھتے ہی رہ گئے کہ اْس کاآخری سرا روضۂ رسول پاک کی دیوار تک پہنچ چکا ہے
** عبدالماجد یوسف بھگت۔ نیوکراچی**
تاریک شب ہے۔غیر ملکی ایوان میں لوگوں کا رش لگا ہوا ہے ،بہت اہم مسئلہ پر بحث ہورہی ہے ،سب کے سب غیر مسلم ہیں ،کافر ممالک کے بڑے بڑے بادشاہ ،وزراء ،فلاسفر ،حکماء اور دانش ور جمع ہیں۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی بھیانک اور خوف ناک منصوبہ بنارہے ہیں۔ یہ 557ھ کا زمانہ ہے ،سردیوں کی ٹھٹھرتی رات ہے۔عالم اسلام کے فرماں روا امیرالمؤمنین سارا دن امورمملکت میں مصروفیت کے باعث شام چڑھے تھک چکے ہیں ،رعایا بھی میٹھی نیند کی آغوش میں جاچکی ہے مگر امیر المؤمنین شدید تکان اور تھکن سے چکنا چور ہونے کے باوجود اپنے پروردگار کی خوشنودی اوراْسے دن بھر کی روئیداد سنانے کے لئے مصلے پر سجدہ ریز ہیں۔عبادت ومناجات سے فراغت کے بعد کچھ دیر اتباع سنت میںآ رام کرنے کے لئے لیٹے ہی ہیں کہ اچانک رحمت دوعالم کی زیارت نصیب ہوتی ہے ،جو ایک مسلمان کے لئے ہفت اقلیم کی سلطنت سے بھی زیادہ حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو موت سے پہلے یہ دولت ضرور نصیب فرمائے۔آمین امیرالمؤمنین پیارے نبی کی زیارت سے مستفید ہوہی رہے تھے کہ اسی دوران میں پیارے نبی کے ساتھ2 چہرے اور نظر آنے لگے ،مگر یہ کیا ان پر تو نحوست کی پرچھائیاں بہت واضح تھیں۔امیرالمؤمنین حیرت میں ڈوب گئے کہ اتنے مکروہ اور ناپسندیدہ چہرے آخر کس کے ہیں ؟رحمت دوعالم نے امیرالمؤمنین کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’مجھے ان2شخصوں نے بہت ایذا دے رکھی ہے، جلد مجھے ان شیطانوں سے نجات دلاؤ!‘‘ امیرالمؤمنین گھبرائے ہوئے بیدار ہوجاتے ہیں ،نیاوضوکرکے اور2رکعت نماز پڑھ کر واپس نیند کی وادیوں میں اْتر جاتے ہیں ۔کچھ ہی دیز گزرتی ہے کہ پھر وہی منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے۔پھر گھبرائے ہوئے بیدار ہوتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں اور پھر آرام کے لئے لیٹ جاتے ہیں مگر اب بھی وہی منظر آنکھوں کے گرد گھومنے لگتا ہے۔3 بار یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا تو امیرالمؤمنین کی پریشانی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔
اب امیر المؤمنین اللہ کے سامنے خوب گڑگڑائے اور انتہائی رقت آمیز لہجہ میں بارگاہِ الٰہی میں التجا کرنے لگے کہ اے اللہ!یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے میرے پیارے نبی کو اذیت پہنچائی ہے اور اس خواب کا کیا مطلب ہے، آخر یہ کیا ماجرا ہے ؟ اے اللہ!مجھ بے بس اور لاچار کی مکمل دستگیری فرماکہ اسلامی دنیا کا بار(بوجھ )میرے کندھوں پر ہے ،بیشک اس خواب نے مجھے ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے لیکن اے اللہ! تو میری رہنمائی کرے تو ان شاء اللہ مجھے اس آزمائش میں سرخ روئی نصیب ہوگی ،اے اللہ! مجھے اس معاملے میں کامیابی اور کامرانی نصیب فرما! ان دل سوزفریادوں کے بعدامیرالمؤمنین نے اپنے انتہائی دانا اور زیرک وزیر جمال الدین موصلی کو فوراً دربارِ خلافت میں طلب کر لیا۔امیرالمؤمنین کے چہرے پر پریشانی کے آثار اْنھوں نے حاضر ہوتے ہی بھانپ لئے اور امیرالمؤمنین کی پریشانی دیکھ کر ان کے چہرے کا بھی رنگ اڑ گیا۔دھڑکتے دل اور لڑھکتی زبان کے ساتھ دریافت کیا:عالم پناہ!کیا ماجرا ہے ،کیوں اس قدر غم زدہ اور افسردہ ہیں؟ امیرالمؤمنین نے اپنی شب بیتی سنائی اور انتہائی پریشانی سے اپنے اس عقل مند وزیر سے کہا:مجھے کوئی مشورہ دو کہ اب میں کیا کروں؟اس لئے کہ آقائے نامدار کا بار بار خواب میں آنا اور ہر بار ایک ہی بات فرمانا کہ مجھے ان 2شخصوں سے نجات دلاؤ!کوئی معمولی بات نہیں ، یہ کسی بڑے خطرے اور اسلام کے خلاف کسی بڑی سازش کی طرف الہامی اشارات ہیں۔ جمال الدین موصلی نے کچھ دیر ٹھہر کر کہا : عالم پناہ! لگتا ہے مدینہ منورہ میں کوئی اہم واقعہ ہونے والا ہے ،ہمیں بغیر کسی تاخیر کے فوراً از خود مدینہ منورہ حاضر ہوجانا چاہیے۔
اس مشورے کے ساتھ ہی امیرالمؤمنین نے ہنگامی بنیادوں پر مدینہ منورہ روانگی کی منادی کروادی اور دمشق کے30 نامور اور جہاں دیدہ قسم کے افراد پر مشتمل ایک قافلے کی ہمراہی میں انتہائی سبک رفتار سواریوں پر مدینہ منورہ کی جانب چل پڑے اور تقریباً 16 روز کی مسافت کے بعد آپ مدینہ منورہ کی پر نور فضاؤں میں پہنچ گئے۔ مدینہ طیبہ میں روضۂ اقدس کے قریب ایک حجرے میں مغربی ملک سے آئے ہوئے 2مہمانوں کی رہائش ہے۔لوگوں میں ان کی بڑی شہرت ہے اور نیک نامی سے لوگ ان کا ذکر کرتے ہیںکیونکہ انھوں نے مدینہ منورہ حاضر ہونے کے بعد اسی حجرے کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے ۔ان کی عبادت اور زہد و ورع کے سارے مدینے میں خوب چرچے ہیں ۔چھوٹا بڑا،مرد وعورت ،جوان وبوڑھا ہر کوئی ان مغربی مہمانوں کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔سوائے نماز اور روضۂ اقدس اور جنت البقیع کی زیارت کے اور کسی بھی کام کیلئے یہ اپنے حجرے سے باہر نہیں نکلتے۔نیز ان کی سخاوت اور صدقہ وخیرات سے نہ صرف مدینہ منورہ کے لوگ فیض اٹھارہے ہیں بلکہ اطراف کے دور دراز علاقوں میں بھی ان کی سخاوت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔لوگ ان مغربی مہمانوں کی عبادتوں ،ریاضتوں اور سخاوتوں سے بے حد متاثر ہیں کہ ہم نبی ٔپاک کے پڑوس میں رہ کر بھی اتنی عبادت نہ کرسکے اور مغرب کے ان مہمانوں نے ایسی مثال قائم کردی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
مدینہ منورہ کے گورنر نے ایک بڑے لاؤ لشکر اور استقبالی ہجوم کے ہمراہ امیرالمؤمنین کی مدینہ منورہ آمد پر شہر سے باہر نکل کر انتہائی شان دار اور والہانہ عقیدت کے ساتھ استقبال کیا۔ امیرالمؤمنین نے رسمی گفتگو کے بعدگورنر کو اپنی آمد اور حاضری کے مقصد سے آگاہ کیا۔ امیرالمؤمنین نے اپنے 30 رکنی وفد کے ہمراہ گورنر اور مدینہ منورہ کے معزز افراد سے باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ خواب میں جن 2شخصوں کو دکھایا گیا ہے اْن تک رسائی کا طریقہ یہ ہے کہ مدینہ کے ہر ہر فرد کو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ،بوڑھا ہو یا جوان ،مرد ہویاعورت ،ہر کسی کو شاہی دعوت نامہ دیا جائے کہ امیرالمؤمنین دارالخلافہ سے روضۂ رسول پاک کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہیں ۔زیارت کے بعد تمام اہلِ مدینہ کی امیرالمؤمنین کی طرف سے ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا ہے ،جس میں بعد ازاں امیرالمؤمنین خود اپنے ہاتھ سے ہر ایک کو ہدایا اور تحائف تقسیم کریں گے ،لہٰذا اس دعوت میں مدینہ منورہ کا ہر فرد اپنی حاضری کو یقینی بنائے۔ امیرالمؤمنین زیارت روضۂ رسول پاک سے فارغ ہونے کے بعد شاہی مہمان خانے میں تشریف لائے ،جہاں پہلے سے سب اہلِ مدینہ باادب تشریف رکھتے تھے ،طعام کا سلسلہ شروع ہوا ،پھر ہدایا اور تحائف کی تقسیم کا مرحلہ آیا ۔ہر ہر شخص کو امیرالمؤمنین نے خود اپنے دست مبارک سے ہدیے دیے اور ہر ایک کو خوب غور سے دیکھنے لگے ۔
تمام باشندگانِ مدینہ ہدایا لے کر فارغ ہوگئے مگر وہ 2 چہرے نہیں دکھائی دیے جن کے لئے یہ سارا انتظام کیا گیا تھا۔ امیرالمؤمنین بے حد پریشان ہوگئے ،گورنر سے کہا کہ کیا اور کوئی باقی تو نہیں رہ گیا،کیا سب ہی نے شرکت کی ہے؟گورنر نے کہا کہ سوائے 2آدمیوں کے باقی سب ہی نے شرکت کی ہے۔2بزرگ ہیں جو عبادت گزار ہونے کے ساتھ گوشہ نشین بھی ہیں، مالدار بھی ہیںاس لئے عام طور پر نہ کسی سے ملتے جلتے ہیں اور نہ ہی کسی کی دعوت پہ جاتے ہیں،اسی وجہ سے ہم نے بھی اْنھیں اس شاہی دعوت میں مدعو نہیں کیا کہ کہیں اْن کی عبادت میں خلل واقع نہ ہوجائے۔ امیرالمؤمنین کا پارہ چڑھ گیا کہ جب کہا گیا تھا کہ کوئی باشندہ باقی نہ چھوڑا جائے تو اْنھیں کیوں یہاں مدعو نہیں کیا گیا۔
گورنر نے حکم کی تعمیل میں فوراً اْنھیں بھی ایوان میں بلوا بھیجااور امیرالمؤمنین سے اْنھیں ملوایا۔ امیرالمؤمنین کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ خواب میں اْنھوں نے جن 2چہروں کو دیکھا تھا وہ منحوس اور مکروہ چہرے انہی2 آدمیوں کے تھے۔ امیرالمؤمنین نے اْن سے دریافت کیا کہ تم کون لوگ ہواور یہاں کیا کررہے ہو؟اْنھوں نے کہا کہ ہم دیارِ مغرب کے باشندے ہیں اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد یہاں مدینہ طیبہ میں حاضر ہوئے،بس تب سے یہاں کی پرنور فضاؤں کا چھوڑنا ہمارے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ امیرالمؤمنین نے سختی سے کہا کہ یہ سفید جھوٹ ہے ،جو اصل حقیقت ہے اْس سے آگاہ کرو ورنہ سنگین نتائج کے لئے تیار ہوجاؤ!یہ دونوں گھبراگئے اور اسی گھبراہٹ میں اپنے دل کی اصل حقیقت سے مطلع کردیا کہ درحقیقت ہم دونوں یہودی ہیں اور ہمیں ایک اہم مشن کے لئے یہاں بھیجا گیا ہے اوروہ سازش انتہائی بھیانک ہے کہ کسی طرح ہم تمہارے رسول (حضرت محمد)کاجسم اطہر اْن کے روضہ سے نکال کر مشن پر روانہ کرنے والی اسلام مخالف کفریہ طاقتوں تک پہنچادیں ،جب مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کے مرکز میں اْن کے نبی ہی نہیں ہوں گے تو مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست ہوجائیں گے ،پھر عالمِ اسلام کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں رہے گاچنانچہ ہم جسمِ اطہر کو چوری کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ایوان میں موجود تمام افراد کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور سب دنگ رہ گئے کہ مدینہ منورہ میں اتنی بھیانک اور خوفناک سازش کی اتنے عرصے سے تیاری ہورہی ہے اور مدینے کے لوگ اس سے بالکل غافل ہیں۔ امیرالمؤمنین کے سامنے گورنر مدینہ اور معززشہریوں کے سر شرمندگی سے جھک گئے اور امیرالمؤمنین سمیت ہر فرد کی آنکھیں ڈبڈباگئیں کہ ہم خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ہمارا دشمن ہمارے دین کی بنیادوں کی بیخ کنی میں اس قدر جری اور باہمت ہوگیا جو آج ہمیں اس ذلت کا سامنا کرنا پڑا،گوکہ اللہ تعالیٰ نے بروقت ہماری دستگیری فرما کر باطل قوتوں کے مذموم منصوبوں کو خاکستر کردیالیکن اس سے ہمیں ایک بہت بڑا سبق بھی مل گیا کہ کافر اور باطل قوتوں سے کبھی بھی کسی بھی قسم کی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے اور اْن سے غافل رہنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ امیرالمؤمنین اِن مکاروں کو لے کر اْن کے شیطانی حجرے میں داخل ہوئے اور ہر ہر چیز کا خوب باریکی سے جائزہ لیامگر کوئی خاص چیز دکھائی نہیں دی ،بالآخر حجرے سے نکلتے ہوئے اپنے پاؤں کے نیچے پڑی ہوئی چٹائی کو ہٹایا تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ نیچے ایک بڑا سوراخ نظر آیا جس میں ایک انسان آرام سے اْتر سکتا تھا ۔امیرالمؤمنین اندراْتر ے تو چونک گئے کہ نیچے تو بہت بڑی سرنگ ہے۔آپ اندر چلتے چلے گئے اور جب سرنگ کے کنارے پر پہنچے تو انگشت بدنداں دیکھتے ہی رہ گئے کہ اْس کاآخری سرا روضۂ رسول پاک کی دیوار تک پہنچ چکا ہے، ایک دن بھی مزید تاخیر ہوتی تو دشمن اپنی سازش میں کامیاب ہوجاتے بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امیرالمؤمنین کو آقائے نامدار کے قدم مبارک بھی دکھائی دیے۔ امیرالمؤمنین اندر سے آبدیدہ حالت میں واپس ہوئے اور روضۂ رسول پاک کے چاروں اطراف میں سیسہ پلائی ہوئی فولادی اور آہنی دیواریں تعمیر کروائیںتاکہ آئندہ کوئی خبیث الفطرت اس طرح کی غلیظ حرکت کرنے کی کوشش بھی کرے تو اْسے کامیابی حاصل نہ ہو۔بعد ازاں اْن دونوں نام نہاد بزرگوں کو جو یہودی اور شیطان تھے ، ایسی عبرت ناک سزائیں دے کر جہنم رسید کروادیاکہ آئندہ کوئی بھی ایسے ناپاک اقدام کا تصور بھی نہ کرے۔ معزز قارئین! کیا آپ جانتے ہیں کہ روضۂ رسول پاک اور جسم اطہر کی حفاظت کی عظیم ترین سعادت حاصل کرنے والے مسلمانوں کے یہ امیرالمؤمنین کون تھے؟یہ امیرالمؤمنین حضرت ’’نورالدین زنگی ‘‘رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے نبی سے اْلفت ،عقیدت محبت اور آپ کی مکمل اطاعت نصیب فرمائے! ،آمین۔