Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلبہ تنظیم جس نے سیاست کی شکل بدل دی 

فاروق ستار بتاتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آیا جب اے پی ایم ایس او کو ختم کرنے کے بارے میں سوچا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
44 سال پہلے کراچی کے ایک متوسط طبقے کے کچھ نوجوان اکٹھے ہوئے۔ یہ نوجوان شہر کے مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ تھے اور ان کے آج کے اجتماع کا مقصد انہیں درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنا تھا۔ 
گفت و شنید اور طویل مشاورت کے بعد ان نوجوانوں نے طے کیا کہ اب وقت آ گیا ہے جب ایک ایسی تنظیم کو عملی شکل دی جائے جس کے ذریعے درپیش مسائل کے خاتمے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ 
اس تنظیم نے نہ صرف آنے والے برسوں میں ملک کے سماج اور سیاست کی ہیئت بدل ڈالی بلکہ اس کے ارکان گذشتہ کئی دہائیوں سے حکومتیں بنانے، قائم رکھنے اور گرانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
بات ہو رہی ہے آج کی ایک اہم سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی ذیلی تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی، جس نے نہ صرف اپنے بطن سے ایم کیو ایم کو جنم دیا بلکہ کراچی شہر، صوبہ سندھ اور کئی حوالوں سے پاکستان کے معروضی حالات بدل دیے۔  
اس تنظیم کے بانی رکن، ایم کیوایم کے سابق سربراہ اور طلبہ سیاست سے کراچی کے میئر بننے والے فاروق ستار بتاتے ہیں کہ ابتدائی جدوجہد کے بعد ایک وقت ایسا آیا تھا جب اے پی ایم ایس او کو ختم کر دینے کے بارے میں سوچا گیا کیونکہ اس کے لیے کام کرنا مشکل ہو رہا تھا، لیکن جس اجلاس میں اس کو ختم کیا جانا تھا وہ اس کی سیاسی جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ 
’سنہ 1981 میں جب ہمارے مخالفین نے شہر کے تعلیمی اداروں میں ہمارا داخلہ ناممکن بنا دیا اور ہمارے لیے مشکلات پیدا کی جانے لگیں تو الطاف حسین نے فیڈرل بی ایریا میں طارق مہاجر کے گھر پر ایک اجلاس بلایا۔‘
’اس اجلاس میں کہا گیا کہ ہم مخالفین کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اُن کے پیچھے ریاست کی طاقت ہے۔ اس اجلاس میں یہ بات زیر غور آئی کہ اے پی ایم ایس او کو یہیں اسی اجلاس میں ختم کر دیتے ہیں۔ مگر اجلاس کے شرکا نے  اے پی ایم ایس او کو ختم کرنے کے بجائے اس کو تعلیمی اداروں سے نکال کر شہری علاقوں میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔‘ 
ان کے مطابق ’سب سے پہلا یونٹ لانڈھی میں کھولا گیا۔ اسی طرح دوسرا یونٹ پی آئی بی کالونی میں اور تیسرا عثمان آباد اولڈ سٹی ایریا میں بنایا گیا۔‘ 
بعد ازاں 18 مارچ 1984 کو اس تنظیم کو آگے لے جاتے ہوئے سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا اعلان کر دیا گیا۔ 

18 مارچ 1984 کو اس تنظیم کو آگے لے جاتے ہوئے سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا اعلان کر دیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق جو اس تنظیم کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں، اے پی ایم ایس او کے قیام کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تقسیم ہند کے بعد اُردو بولنے والے موجودہ انڈیا کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو اُن کی اکثریت بھی صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئی۔‘
’وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اگست 1973 کو قائم ہوئی تھی۔ صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار بھٹو نے ملک میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا جس کے تحت اہلِ کراچی کو میرٹ یا قابلیت کے بجائے کوٹے پر ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنے لگا۔‘
امین الحق کے مطابق ’اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں دیگر علاقوں کے مقابلے میں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور قابلیت کی وجہ سے دیگر علاقے کے لوگ محرومی کا شکار ہورہے ہیں۔اس جیسے دیگر کئی عوامل نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اپنی جدوجہد کی طرف بڑھیں۔‘ 
سینیئر صحافی مظہر عباس کے مطابق ’صوبہ سندھ کی شہری آبادی کے ایک بڑے حصے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اُردو بولنے والی آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔‘

امین الحق کے مطابق ’اہلِ کراچی کو میرٹ یا قابلیت کے بجائے کوٹے پر ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنے لگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 
سید امین الحق کے مطابق اس سیاسی نمائندگی کے لیے 1980 کی دہائی میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا گیا تھا جن میں ریکارڈ کامیابی نے اس بات کی بنیاد رکھی کہ متوسط طبقے کے لوگ مرکزی ایوانوں میں اپنے لوگوں کی نمائندگی کریں اور جائز حقوق کے لیے قانون سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔ 
بشرٰی زیدی کی وفات 
مظہر عباس کے مطابق 15 اپریل 1985 کو کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد کی چورنگی پر ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی جان جانے سے اردو بولنے والے طلبہ اور سیاسی کارکنوں کی تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا۔ 
’طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج لسانی رنگ اختیار کرگیا۔ طالبہ کی ہلاکت نے کوٹہ سسٹم اور شہری آبادی کی محرومیوں کی پہلے ہی سے موجود دیگر وجوہات کی وجہ جاری لسانی کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔‘
 ان کے مطابق ’اس وقت مہاجر نعرے کو وہ سیاسی مقبولیت حاصل ہوئی جس کی توقع نہ تو خود اے پی ایم ایس او کو تھی اور نہ اس کے مخالفین کو۔‘  
اس مقبولیت نے اردو بولنے والے چند نوجوانوں کی ایک تنظیم کو اتنا طاقتور بنا دیا کہ اس کے لوگ، جنہیں قانون ساز اسمبلیوں کے رستے کا بھی علم نہیں تھا، ملک کے اعلٰی ترین ایوانوں کے منتخب ارکان بن گئے۔ 

امین الحق کہتے ہیں کہ ’مجھے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے گیٹ پر یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ میری عمر کم ہے‘ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

’اس عمر میں رکن اسمبلی نہیں بن سکتے‘ 
سید امین الحق قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد پہلی بار ایوان پہنچنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا اور اجلاس میں شرکت کے لیے قومی اسمبلی پہنچا تو ہم چار ارکان کراچی سے تھے۔‘
’میں نے ہمارا روایتی لباس کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا۔ میں جیسے ہی اسبملی کے مرکزی دروازے پر پہنچا تو مجھے گیٹ پر یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ میری عمر کم ہے اور میں رکن اسمبلی بن ہی نہیں سکتا تو ایوان میں داخل کیسے ہونے دیا جائے۔‘ 
ان کے مطابق ’میرا تعلق متوسط طبقے کے ایک گھرانے سے تھا۔ اس سے قبل میرے خاندان کا کوئی فرد قومی اسمبلی کا رکن نہیں بنا تھا۔ میں نے دور طالب علمی میں طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او سے سیاسی سفر شروع کیا تھا جو ابتدائی دنوں میں میرے گھر والوں کو بھی پسند نہیں تھا۔‘ 
کل کے اتحادی آج یوم تاسیس بھی الگ مناتے ہیں 
موجودہ اے پی ایم ایس او (ایم کیوایم پاکستان بہادر آباد) کے انچارج کا کہنا ہے کہ 11 جون 1978 کو شروع ہونے والا سفر اب بھی جاری ہے۔  

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’وہ نوجوان جو کبھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہوئے تھے، آج وہ بھی اختلافات کا شکار ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اے پی ایم ایس او کے قیام کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں سیاست میں تشدد کے عنصر میں بھی اضافہ ہوا۔ اور کئی دہائیوں کے تشدد، لسانی تعصبات اور حکومتی ادوار کے باوجود آج بھی سندھ کی حالت 1978 سے مختلف نہیں ہے۔ 
’کئی دہائیوں کی قتل و غارت گری، کئی نوجوانوں کی جانیں گئی لیکن اب بھی سندھ میں کوٹہ سسٹم اسی طرح رائج ہے۔ وہ تمام مسائل جن کے حل کے لیے اے پی ایم ایس اور اور ایم کیو ایم بنائی گئی تھی آج تک حل نہیں ہوسکے ۔‘ 
ان کا کہنا ہے کہ وہ نوجوان جو کبھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہوئے تھے، آج وہ بھی اختلافات کا شکار ہیں اور چار حصوں میں تقسیم ہیں۔ اب وہ اپنی جماعت کا یوم تاسیس چار مختلف جگہوں پر الگ الگ مناتے ہیں۔ 

شیئر: