مملکت میں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے (فوٹو: ایس پی اے)
ایک روز وہ تھا جب کورونا وبا کے باعث سعودی عرب میں بندشیں عائد کی گئی تھیں اور ایک تھا پیر کا وہ روز جب چھ ماہ بعد بندشوں کا خاتمہ کیا گیا، جن میں بند مقامات پر ماسک پہننے کی پابندی بھی شامل تھی۔
عرب نیوز نے سعودی پریس ایجنسی میں شائع ہونے والے سعودی وزارت داخلہ کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ 12 جنوری سے اب تک کس طرح سے سعودی عرب نے کورونا وائرس کو شکست دی۔ 12 جنوری کو ایک دن میں سامنے آنے والے سب سے زیادہ کیسز 5362 رپورٹ ہوئے تھے اور دو اموات واقع ہوئی تھیں۔
سعودی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ اب کسی کے لیے بھی بند مقامات میں ماسک پہننا ضروری نہیں ہے سوائے مکہ میں مسجد الحرام اور مدینے میں مسجد نبوی کے۔
بیان کے مطابق تقریبات، ہوائی جہازوں، عوامی مقامات یا پبلک ٹرانسپوٹ میں داخل ہونے کے لیے توکلنا ایپ پر ویکسینیشن کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
حال ہی میں صحت مند بچے کو جنم دینے والی 33 سالہ سعودی خاتون رافہ امین کا کہنا تھا ’مجھے ویکسین کی وجہ سے مسلسل درد رہا کیونکہ میں حاملہ تھی، جس کے بعد ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ میں بوسٹر شاٹ نہ لوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں بوسٹر شاٹ لیتی تو اس کے مضر اثرات کا خدشہ تھا اس لیے وزارت صحت نے مجھے استثنٰی دیا۔ تاہم اس کو ثابت کرنے کے لیے مجھے ایک طویل پراسس سے گرزنا پڑتا کیونکہ میں نے اپنے گھر برطانیہ جانا تھا۔‘
انہوں نے بندشوں کے خاتمے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہ اب ایک سے دوسرے ملک کی طرف سفر آسامن ہو جائے گا۔
سعودی عرب سے دوسرے ممالک جانے والوں کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اپنی تیسری بوسٹر شاٹ لیں تاہم اب وہ تین کے بجائے آٹھ ماہ بعد ہو گی۔
تاہم نے ضوابط 16 سال سے کم عمر افراد یا استثنٰی رکھنے والوں پر لاگو نہیں ہوں گے۔
ایس پی اے نے یہ بھی بتایا ہے کہ وزارت خود کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے بوسٹر شاٹ لینے والوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گی۔
سعودی عرب کے وزیر صحت فہد الجلاجل کا بندشوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ سعودی عرب نے جس طرح سے وبا سے نمٹنے کے انتظامات کیے اس میں دیگر ممالک کے لیے بھی سبق ہے اور وہ یہ کہ عوام سب سے پہلے آتے ہیں۔
سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایت بھی اسی بات کا ثبوت تھیں، جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی شہریوں، مقیم اور دوسرے ممالک کے وہ لوگ جن کے پاس کاغذات بھی نہیں، ان کو بھی بغیر کسی امتیاز کے علاج کی سہولت مہیا کی جائے۔
17 جون 2020 کو کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے سامنے آتے تک مملکت میں کیسز کی شرح زیادہ رہی۔ ان دنوں کیسز کی تعداد چار ہزار نو سو 19 تک پہنچ گئی تھی۔
ایک لحاظ سے 17 جون 2020 اور 12 جنوری 2022 دونوں ہی سعودیوں کے لیے اہم ہیں، خصوصاً اس وقت جب وہ کورونا کے خلاف اپنے ملک کی جدوجہد پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ ایک ایسا دشمن جس سے پوری دنیا عاجز آئی ہوئی تھی۔
کورونا وائرس کا آغاز چین کے علاقے ووہان سے دسمبر 2019 میں ہوا تھا، تاہم سعودی عرب اپنے بہترین انتظامات کی بدولت تین ماہ تک اس سے محفوظ رہا تھا۔
نائب وزیر برائے پبلک ہیلتھ ڈاکٹر ہانی اوخدر اگست 2020 میں ہونے والی ڈیجیٹل ہیلتھ سمٹ سے خطاب میں کہا تھا کہ’ہم دوسرے کئی ممالک کی نسبت خوش قسمت تھے کیونکہ ہمارے ہاں کیسز دیر سے پہنچے۔ جس سے ہم کو اپنے سسٹم کو بہتر بنانے کا موقع ملا اور اس صورت حال کا مشاہدہ کرنے کا بھی وقت ملا جو اس وقت باقی دنیا میں ہو رہا تھا۔‘
سعودی دنیا کے ان پہلے ممالک میں شامل تھا جہاں ٹیسٹ کے لیے لیبارٹریز قائم کی گئیں۔
فروری متاثرہ ممالک کے ساتھ سفر کو کم کر دیا گیا جبکہ اور پندرہ مارچ تک تمام بین الاقوامی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ اس کے کچھ عرصے بعد داخلی سفر پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
اسی طرح 27 فروری کو تاریخی اور ضروری اقدامات کیے اور عمرے کے لیے ویزے معطل کر دیے جبکہ مسجدیں بھی بند کر دی گئیں۔
سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے ان انتظامات میں دراڑ تب آئی جب دو متاثرہ افراد بحرین سے پہنچے، جبکہ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اس سے قبل وہ ایران بھی گئے تھے، جہاں ان دنوں مرض شدید طور پر پھیلا ہوا تھا۔
بہرحال سعودی عرب خلیج تعاون کوسنل کی چھ ریاستوں میں سب سے آخر میں متاثر ہوا اور پہلے سے مرض سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کی گئی تھی۔
اس کے لیے سمارٹ فونز کی ایپس تیار کی گئیں اور ورچوئل تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
جس کے بعد صورت حال زیادہ خرابی کی طرف نہیں گئی اور دوسرے ممالک کی نسبت سعودی عرب نے بہتر انداز میں وبا کو کنٹرول کیا اور آج انہی اقدامات کا ثمر ہے کہ سعودی عرب وبا کے اثرات سے نکل آیا ہے۔