Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کا آئینی حق ختم کردیا

اسقاط حمل کے حق اور مخالفت میں دہائیوں سے امریکہ میں بحث جاری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں سپریم کورٹ نے خواتین کے اسقاط حمل (ابارشن) کے آئینی حق کو ختم کردیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جمعے کو امریکی سپریم کورٹ نے ایک ڈرامائی حکم نامے میں سنہ 1973 میں خواتین کو اسقاط حمل کرانے کی اجازت دیے جانے کے ’روو وی ویڈ فیصلے‘ کو ختم کردیا ہے۔
 امریکی صدر جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’اسقاط حملے سے متعلق عدالتی فیصلے نے امریکیوں کا حق چھین لیا ہے۔‘
صدر جو بائیڈن نے عدالتی فیصلے کی مخالفت کرنے والے کارکنوں سے اپنا احتجاج پرامن رکھنے کی اپیل کی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ری پبلکنز اور رجعت پسند مذہبی طبقے کی جیت قرار دیا جا رہا ہے جو اسقاط حمل پر پابندی کے حق میں تھے۔
امریکہ کے سابق نائب صدر مائیک پنس نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے تاریخ کی غلطی کو درست کرنے کا اہم قدم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اسقاط حمل کے سوال کو ریاستوں اور عوام کو واپس کرتے ہوئے موجودہ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی غلطی کو درست کردیا ہے اور امریکی شہریوں کے خود حکومت کرنے حق کو تسلیم کیا ہے۔‘
دوسری جانب اس فیصلے کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور سرکردہ امریکی شخصیات نے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’بنیادی اور ضروری آزادیوں‘ پر حملہ ہے۔
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹوئٹر پر بیان میں اس فیصلے کو کروڑوں شہریوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے صرف 50 برس قبل کیے گئے فیصلے کو ہی ختم نہیں کیا بلکہ سب سے زیادہ نجی و ذاتی نوعیت کے فیصلے کو بھی ختم کرتے ہوئے سیاست دانوں اور نظریوں کے تابع کردیا ہے۔ یہ کروڑوں امریکیوں کے بنیادی حق پر حملہ ہے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میزوری وہ پہلی ریاست ہے جس نے اس پر عمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسقاط حمل پر پابندی عائد کردی ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی تنقید کرتے ہوئے اس کو ’پیچھے کی جانب قدم‘ قرار دیا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

شیئر: