سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس وقت سخت پیغام کیوں دیا جا رہا ہے؟
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس وقت سخت پیغام کیوں دیا جا رہا ہے؟
بدھ 6 جولائی 2022 6:58
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
عمران خان نے عوام سے درخواست کی کہ وہ ملک بچانے کے لیے آگے آئیں۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ ’اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ چپ نہیں رہیں گے اور سب کچھ قوم کے سامنے رکھ دیں گے۔‘
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’انہیں سب پتا ہے کہ کس نے کیا کیا ہے۔ مگر وہ اس لیے خاموش ہیں کہ ملک کو نقصان نہ پہنچے۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے مخاطب ہیں اور ان کے اس وقت اس طرح کے پیغام کی کئی وجوہات ہیں۔
عمران خان نے ایک بار پھر مبینہ بیرونی سازش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی سے خوش نہیں تھا، اس لیے اس نے یہاں کے میر جعفر اور میر صادق کو ساتھ ملا کر حکومت تبدیل کروائی۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی امور کے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا عمران خان پر آہستہ آہستہ واضح ہو رہا ہے کہ ان کے فوری انتخابات کے مطالبے کو پذیرائی نہیں مل رہی ہے، اور ان کی جھنجلاہٹ بڑھنے کی بھی یہی وجہ ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’اس کے علاوہ چونکہ ضمنی الیکشن قریب ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو کامیابی کا موقع ملے۔ دوسری طرف سابق خاتون اول اور ان کے دیگر قریبی افراد کے حوالے سے آڈیوز لیک ہونے کا سلسلہ بھی رکے۔‘
عمران خان نے اپنے خطاب میں اداروں اور عوام سے درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ کن وقت ہے، ملک بچانے کے لیے آگے آئیں۔
سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس کے خیال میں عمران خان کو اندازہ ہے کہ 17 جولائی کے انتخابات میں ان کی جماعت کا جیتنا کتنا ضروری ہے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے امیدواروں کو فائدہ ہو۔‘
’دوسری طرف وہ عام انتخابات کے فوری انعقاد کے لیے بھی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں، اسی لیے انہوں نے آج یہ بات کی ہے۔‘
پروفیسر رسول بخش کے مطابق عمران خان کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ اسٹیلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کو زیادہ بڑھائیں اس لیے وہ عوامی رابطہ مہم کو تیز کر رہے ہیں۔
’سیاسی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ ایک طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اب بھی مفاہمت چاہتے ہیں مگر انہیں سیاسی نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘
17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کے ان 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے جہاں سے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے ووٹ دینے کی پاداش میں ڈی سیٹ ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ضمنی الیکشن کے بعد وزارت اعلیٰ کے لیے دوبارہ انتخاب ہونا ہے اس لیے ان انتخابات میں کامیابی کے لیے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے لیے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ مستقل کرنے کے لیے ان انتخابات میں 10 سیٹیں جیتنا ضروری ہے جبکہ پی ٹی آئی کو کم از کم 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔