Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان

بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے سکینڈلز کی زد میں تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بورس جانسن نے جمعرات کو 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ واضح طور پر پارلیمانی کنزرویٹو پارٹی کی مرضی ہے کہ اس پارٹی کا ایک نیا لیڈر ہونا چاہیے، ایک نیا وزیراعظم ہونا چاہیے۔‘
پارٹی قیادت سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بورس جانسن نے کہا کہ ’نئے رہنما کے انتخاب کا عمل اب شروع ہو جانا چاہیے۔ نئے پارٹی لیڈر کے آنے تک اپنے فرائض نبھاؤں گا۔‘
اس سے قبل برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم بورس جانسن کو ان کی کابینہ کے ارکان نے عہدہ چھوڑنے کے لیے قائل کیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بورس جانسن کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے نیا وزیراعظم منتخب کیے جانے تک اکتوبر کو عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔
منگل کو برطانوی حکومت کے چانسلر رشی سونک اور سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ بورس جانسن کی انتظامیہ کو داغدار کرنے والے حالیہ سکینڈلز کے تناظر میں حکومت میں مزید نہیں رہ سکتے۔

بورس جانسن کن الزامات زد میں تھے؟

بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے سکینڈلز کی زد میں تھی۔ وزیراعظم کو کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے پر جرمانہ کیا گیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ ان کے ڈاؤننگ سٹریٹ آفس کے عہدیداروں کے رویے کے خلاف ایک قابل مذمت رپورٹ شائع ہوئی تھی جنہوں نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن کی پالیسی میں یوٹرن بھی دیکھے گئے، لابنگ کے حوالے سے بنائے گئے قواعد توڑنے والے ایک قانون ساز کا خوامخواہ دفاع بھی ان پر تنقید کی وجہ بنا۔
اس کے ساتھ ساتھ بورس جانسن پر یہ تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے ایندھن اور اجناس کی بڑھتی قیمتوں کا سامنا کرنے والے برطانوی عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
تازہ ترین سکینڈل میں بورس جانسن نے ایم پی کرس پنچر کو حکومتی عہدے پر تعینات کیا جن کے خلاف جنسی بدسلوکی کی شکایات تھیں۔

بورس جانسن کو برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا رہا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد رشی سونک نے وزیر خزانہ اور ساجد جاوید نے سیکریٹری صحت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ساجد جاوید نے اپنے استعفے کے متن میں لکھا کہ ’یہ واضح ہے کہ یہ صورتحال آپ کی قیادت میں نہیں بدلے گی اس لیے آپ نے میرا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’انتہائی افسوس کے ساتھ مجھے آپ کو بتانا ہو گا کہ میرا ضمیر مجھے اس حکومت میں خدمات جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ برطانوی عوام اپنی حکومت سے دیانتداری کی توقع رکھتے ہیں۔‘
علاوہ ازیں ریسرچ اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی برطانوی فرم یو گوو کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 69 فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ بورس جانسن کو وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہو جانا چاہیے۔

شیئر: