دنیا بھرسے آنے والے لاکھوں حجاج کرام حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کرنے کے بعد 9 ذوالحجہ کو ہی غروب آفتاب کے ساتھ ہی مزدلفہ کی جانب روانہ ہوگئے جہاں پہنچ کرانہوں نے مغرب اور عشا کی نمازیں ’قصر وجمع‘ کی صورت میں ادا کیں اور رمی کےلیے کنکریاں اکھٹی کی۔
بیشتر حجاج کرام نو ذوالحجہ کی شب کو ہی مزدلفہ سے منی کے لیے روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے دس ذوالحجہ کو بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں۔
دس ذوالحجہ کو رمی کے پہلے دن کی مصروفیات دیکھیں اردونیوز (محمد المانع اور بشیر صالح ) کی ان تصاویر میں۔
منی کی عارضی خیمہ بستی دنیا کا واحد مقام ہے جو سال میں صرف چند دنوں کے لیے ہی بسایا جاتا ہے۔ یہاں دنیا بھرسے حج کے دنوں میں لاکھوں فرزندان اسلام آتے ہیں اورزندگی کا اہم ترین فریضہ ادا کرتے ہیں۔
جمرات کا مقام ماضی میں کافی تنگ ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے یہاں حادثات بھی ہوا کرتے تھے۔ سعودی حکومت کی جانب سے جمرات کے مقام کو اس انداز میں بنایا کہ لاکھوں افراد بیک وقت یہاں رمی کرسکتے ہیں۔
جمرات کا مقام کئی منزلہ ہے ہرمنزل پرجانے اور وہاں سے باہرآنے کا راستہ جدا ہے جس کا مقصد حجاج کی آمد ورفت کے موقع پرتصادم کی صورت حال پیدا نہ ہو۔ رمی کرنے والے ایک سمت سے جمرات پرجاتے ہیں اوردوسری جانب سے اترکراپنے خیموں میں چلے جاتے ہیں۔
جمرات جانے والے راستے اورپل پرسعودی سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے حجاج کرام کے ساتھ مثالی تعاون کیا جارہا ہے ۔ معمر اورضعیف حجاج کے لیے راستے بھی مخصوص کیے گئے ہیں۔
رمی کے پہلے روز حجاج کی اکثریت بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد طواف کرنے کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئی۔
سعودی اسکاونٹس اوردیگر رضاکاروں کی جانب سے بھی حجاج کرام کی رہنمائی کا عمل جاری ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے رضاکارمشاعر مقدسہ میں حجاج کرام کی رہنمائی کرتے ہیں۔
حجاج کے قافللے سنیچر کو دن بھر منی سے مکہ مکرمہ اور مکہ مکرمہ سے منی کی جانب رواں دواں رہے۔
سیکیورٹی اہلکار منی میں ہر جگہ ہر وقت حجاج کی مدد میں پیش پیش رہے۔