Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سری لنکن صدارتی محل میں مظاہرین: ’جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی‘

مظاہرین محل کے مختلف حصوں میں تصویریں بناتے رہے (فوٹو: اے ایف پی)
سری لنکا میں مظاہرین کی جانب سے صدارتی محل پر دھاوا بولنے کے اگلے روز دارالحکومت کولمبو میں حالات قدرے پرسکون ہیں تاہم  مظاہرین نے صدر راجا پکشے کے اقتدار سے علیحدہ ہونے تک صدارتی محل چھوڑنے کا انکار کر دیا ہے۔ 
سپیکر پارلیمان کے مطابق وزیراعظم رنیل وکرماسنگھے نے بھی کہا ہے کہ وہ کل جماعتی انٹرم حکومت کے قیام کے لیے مستعفی ہو جائیں گے جبکہ صدر راجاپکشے 13جولائی اور صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ 
سری لنکا میں جاری سیاسی بحران ملک کو بدترین معاشی بحران سے نکلنے میں مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے، غیرملکی کرنسی کی قلت نے تیل، خوراک اور ادویات کی درآمد رک چکی ہے۔ 
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ وہ حالات کو بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ سری لنکا کی آئی ایم سے تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی بات جیت بھی چل رہی تھی۔ 
ایک بیان میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ’ہم موجود صورتحال کے کسی حل کی امید کرتے ہیں جس سے  آئی ایم ایف کے سپورٹ پروگرام پر  ہماری دوبارہ بات چیت شروع ہو سکے۔‘ 
صدر راجا پاکسا کو جمعے سے منظرعام پر نہیں دیکھا گیا اور مستعفی ہونے کے بارے میں بھی انہوں نے براہ راست کوئی بیان نہیں دیا تاہم وزیراعظم وکرما سنگھے کے دفتر کا کہنا ہے کہ وہ بھی مستعفی ہو جائیں گے۔ صدر اور وزیراعظم سے تاحال کوئی براہ راست رابطہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ 
کابینہ کے تین ارکان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے استعفےبھیج دیے ہیں۔ 
دوسری جانب خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین نے صدر کے استعفے تک صدارتی محل خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ 

بچے اور بڑے سبھی محل کے مختلف حصوں میں گھومتے پھرتے رہے (فوٹو: اے ایف پی)

طالب علم رہنما لہیرو ویراسکیرا نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہم اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب وہ واقعی مستعفی نہیں ہوجاتے۔‘ 
بہت سے لوگ ملک کے معاشی بحران کا ذمہ دار صدر گوتابایا راجا پکشے کو ٹھہراتے ہیں۔ مارچ سے بڑے پیمانے پر پرامن احتجاج کرتے مظاہرین نے ان کے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
اتوار کو صدارتی محل کے دروازے سب کے لیے کھلے رہے، بچے اور بڑے سبھی محل کے مختلف حصوں میں گھومتے پھرتے رہے۔ 
بدھ مت کے ایک راہب سری سمیدا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب رہنماؤں کے پاس ایسی لگژری ہو تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ عام آدمی کیسے گزارہ کرتا ہے۔‘ 
’یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب عوام اپنی طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر لیں تو وہ کیا کر سکتے ہیں۔‘ 

شیئر: