اتحادی حکومت کے 100 دن مکمل، غیر یقینی کی صورتحال برقرار
اتحادی حکومت کے 100 دن مکمل، غیر یقینی کی صورتحال برقرار
بدھ 20 جولائی 2022 8:55
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن ہنی مون پیریڈ جبکہ موجودہ حکومت کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی حکومت کو 100 روز مکمل ہو گئے ہیں تاہم روز اول سے چھائے غیر یقینی کے سائے آج بھی قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کے وزارت عظمٰی سنبھالنے کے بعد سٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اتحادی حکومت کا اب تک 100 روز میں سب سے بڑا کارنامہ آئی ایم ایف سے ڈیل قرار دیا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس معاہدے کے معیشت پر کچھ بہتر اثرات مرتب ہوں گے لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو شکست کے بعد کاروباری حلقوں میں ایک بار پھر غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
اتحادی حکومت اور تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی 100 دنوں کا موازنہ
شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی کمزور ہوتی معیشت کا چیلنج درپیش تھا۔ اسی چیلنج کو اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی آئی ایم ایف سے ہونے والی ڈیل کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے اسلام آباد ایئر پورٹ تک میٹرو بس ایکسٹینشن اور اسلام آباد میں بلیو اور گرین بس سروس کا آغاز کیا۔
مہنگائی کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے کم آمدن والے افراد کو دو ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان بھی 100 روز میں کیا۔
شہباز شریف حکومت نے کفایت شعاری مہم کا آغاز کیا جس میں وزرا اور کابینہ ارکان کے پیٹرول الاونس میں کٹوتیاں کی گئیں۔
موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی 100 روز میں اہم قانون سازی کی جس میں نیب قوانین میں ترمیم، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے قانون کو ختم کرنا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے آئی ووٹنگ کا حق ختم کرنا شامل ہیں۔
موجودہ حکومت کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی 100 روز میں پالیسی سازی پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق موجودہ حکومت کی تحریک میں عدم اعتماد کامیابی کے علاوہ کوئی کامیابی نظر نہیں آئی۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم عمران خان نے ابتدائی 100 روز میں وزیراعظم سٹیزن پورٹل کا اجرا کیا جس کے تحت شہریوں کی شکایات براہ راست وزیراعظم آفس تک پہنچائی جاتی تھیں۔ سابقہ حکومت کا یہ منصوبہ ساڑھے تین سالہ اقتدار کا قابل ذکر اور عوام میں مقبول منصوبہ رہا ہے۔
احتساب کے نعرے کے ساتھ آنے والے وزیراعظم نے ایسٹ ریکوری یونٹ کی بنیاد رکھی تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ یونٹ بھی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکا۔
ابتدائی 100 روز میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کفایت شعاری مہم کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم آفس کی لگژری گاڑیاں اور گائے بھینسیں نیلام کرنے کا اعلان کر کے اس مہم کے ذریعے 15 کروڑ روپے سے زائد رقم کی قومی خزانے میں جمع کرائی گئی تاہم بعد میں اس مہم کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی 100 روز میں پارلیمنٹ غیر فعال رہی اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان پارلیمانی کمیٹیوں پر اتفاق نہ ہونے کے وجہ سے پارلیمانی کمیٹیاں کارروائی کا آغاز نہ کر سکی تھیں۔ بنیادی طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پبلک اکانٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا تنازع بنا رہا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق موجودہ حکومت کی تحریک میں عدم اعتماد کامیابی کے علاوہ کوئی کامیابی نظر نہیں آئی۔ ’روپے کی قدر گر رہی ہے، بجلی کا شارٹ فال بڑھ رہا ہے، مہنگائی کی شرح میں بدترین اضافہ ہو رہا ہے۔‘
پنجاب کے ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت ن لیگ کو شکست کے بعد ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ فوٹو: اے پی پی
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ حکومت کی واحد کامیابی یہی ہے کہ اپنے خلاف مقدمات کے شواہد ختم کرنا، نیب قانون میں ترمیم کرلی، اپنے مفاد کے لیے سب کیا ہے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا نہ ہی کر سکتے ہیں۔ اب زیادہ سے زیادہ یہ اپنے خلاف کیسز کو خراب کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
رسول بخش رئیس کے مطابق ’سب سے غلط کام یہ ہوا کہ ایک چلتی ہوئی حکومت کو انہوں نے عدم استحکام کا شکار کیا اور اپنے پیسوں کے زور پر حکومت تبدیل کی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت میں کوئی موجود نہیں ہے جو ملک کے مسائل خاص طور معاشی مسائل کو سمجھے۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے خیال میں ’تحریک انصاف کے ابتدائی 100 روز ہنی مون پیریڈ تھا جبکہ موجودہ حکومت کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے اور مشکل فیصلے لینا پڑ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کر لی ہے یہ ایک بریک تھرو ہے۔ گورننس سابقہ حکومت سے نسبتا بہتر ہے لیکن ابھی کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں حکومتوں نے 100 دنوں میں کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا۔ عمران خان کی حکومت کو اتنi معاشی مشکلات درپیش نہیں تھیں۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’موجودہ حکومت کو اتحادیوں کی ۸طرف سے کوئی مشکلات نہیں۔ موجودہ دور میں چیلنج معیشت ہے اور اس وقت جو سابق حکومت سرنگیں بچھا گئی تھی ان سے نکلنے میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق موجودہ حکومت کی ناکامی کی وجہ چیلنجز کے ساتھ ساتھ استعداد کار کی کمی ہے۔ ’ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی استحکام ہونا چاہیے۔ انہوں نے سیاسی استحکام خود ختم کیا، جس درخت پر بیٹھے وہی کاٹیں گے تو کیسے کام چلے گا۔ ایک اپنی بقا کی سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں اور دوسری لڑائی عمران خان کو شکست دینے کی اور اس میں ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘یہ عدم اعتماد نہیں بلکہ عدم استحکام تھا، جو کچھ ان سے کروایا گیا اس سے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ حکومت اس قابل نہیں کہ کچھ کر سکے۔ تین چار ہفتے تو کابینہ ہی نہیں بن رہی تھی کیونکہ بندر بانٹ تھی۔‘