پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن سبطین خان سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہو گئے ہیں۔
جمعے کو ووٹوں کی گنتی کے بعد پینل آف چیئر وسیم بادوزئی نے سبطین خان کی کامیابی کا اعلان کیا۔ یہ عہدہ چوہدری پرویز الہی کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد خالی ہوا تھا۔
مسلم لیگ ن اور اتحادیوں نے سیف الملوک کھوکھر کو سپیکر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر رکھا تھا۔ انہوں نے 175 ووٹ حاصل کیے جبکہ سبطین خان کو 185 ووٹ ملیں جبکہ چار مسترد ہوئے۔
قبل ازیں اپوزیشن کے امیدوار سیف الملوک کھوکھر کے احتجاج کی وجہ سے پولنگ کا عمل پانچ منٹ رکا رہا۔
سیف الملوک کھوکھر نے پرچی جاری کرنے والے ایجنٹ کا رجسٹر چھین کر پھینک دیا جبکہ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی رانا مشہود اور رخسانہ کوکب نے پرزائیڈنگ آفیسر پر حملہ کیا، جس کے بعدپینل آف چیئرمین نے سییورٹی ایوان کے اندر بلا لی۔
دوسری جانب ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے خلاف حکومتی پینچ کی جانب سے نعرے لگائے گئے۔
جمعے کو پنجاب اسمبلی آمد کے موقع پر سابق وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے کہا کہ ہم جیتنے کی پوری کوشش کریں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ’انہوں نے ووٹنگ کے حوالے سے کہا وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔ ہمارے ارکان کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔‘
وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حمزہ شہباز نے کہا ’ہم اسمبلی کے وزیراعلٰی ہیں وہ عدالتی وزیراعلٰی ہیں۔‘
سپیکر کے انتخاب کے لیے ایک مرتبہ پھر سیاسی ماحول گرما دیا تھا۔ مسلم لیگ ن کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے امیدوار کو سپیکر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں
-
کیا وفاقی حکومت صوبہ پنجاب میں گورنر راج لگا سکتی ہے؟Node ID: 688196
-
الیکشن وقت پر ہوں گے، حکومت مدت پوری کرے گی: پی ڈی ایمNode ID: 688561
-
کیا چوہدری شجاعت کو ق لیگ کی صدارت سے ہٹا دیا گیا ہے؟Node ID: 688606
اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے چیف وہیپ طاہر خلیل سندھو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پُرامید ہیں کہ سپیکر اب مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ اس کے لیے تمام اتحادی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ خود تحریک انصاف کے اندر اس وقت دراڑ پڑ چکی ہے جو ان کے ممبران اپنے ووٹ سے بتائیں گے۔‘
خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف اور اتحادی جماعت ق لیگ کے پاس 186 ممبران جبکہ مسلم لیگ اور اتحادیوں کے پاس 178 ممبران ہیں۔ سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہو گا اور ممبران پر نااہلی کی شق بھی نہیں لگے گی، اس لیے بھی صورت حال دلچسپ ہو گی۔
پنجاب اسمبلی کی عمارت میں شام پانچ بجے سپیکر کے انتخاب کا عمل ہوگا۔
طاہر خلیل سندھو نے مزید بتایا کہ ’شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے کو سپیکر بنوانا چاہتے تھے لیکن پارٹی کے اندر ہی ان کی بات نہیں۔ اس بات کا اثر بھی انتخابات پر پڑے گا۔ اسی طرح کئی تحریک انصاف کے اراکین چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ بھی اب اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔‘
جمعرات کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس پینل آف چئیرمین نوابزادہ سیم بادوزئی کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں سابق وزیر قانون راجہ بشارت نے رولز معطل کرکے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کرانے کے مطالبے کی قرارداد ایوان میں پیش کی۔ پنجاب اسمبلی نے قراداد کثرت رائے سے منظور کر لی۔
اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے ممبران نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی جبکہ پینل آف چئیرمین کی جانب سے الیکشن قواعد بھی پڑھ کر سنائے گئے جن کے مطابق ممبران کو الیکشن بوتھ میں موبائل فون لے کر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
حکمران اتحاد کا کہنا ہے کہ ان کی اسمبلی میں واضح اکثریت ہے اور سپیکر بھی انہی کا ہو گا۔
