کوئی آدمی بھی ایسا نہیں مگر اس کا دل اﷲ کی 2انگلیوں کے درمیان ہے ، جس کو چاہے سیدھا رکھے اور جس کوچاہے ٹیڑھا کردے
* * * *مولانا محمد عابد ندوی۔جدہ* * * * ’’
دل ‘‘ جسمِ انسانی میں قدرت الٰہی کی عظیم نشانی ہے۔ یہ بظاہر گوشت کا ایک ٹکڑا اورخون پمپ کرنے کا قدرتی آلہ ہے لیکن معنوی و روحانی اعتبار سے معرفت ربانی کا مرکز ومنبع ہے۔ ظاہری و باطنی صلاح و فساد کا اسی سے گہرا ربط و تعلق ہے ۔ تصدیق و یقین اور نور ایمان وہدایت کی شعاعیں اسی سے پھوٹتی ہیں اور کفر و ضلالت ، زیغ و نفاق کی گھٹائیں اسی پر چھاتی ہیں ۔ قلب و دل کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کی اصلاح کی فکر پر زور دیا گیا اور کتب و سنت میں اس کی پرزور تاکید کی گئی ۔ دل ، ایمان سے لبریز ہوتو اس کے آثار بندۂ مومن کے اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتے ہیں ، پھر قرآن پاک کی تلاوت ، اس میں غور و تدبر ، انبیاء و صلحاء اور نیک لوگوں کی صحبت سے ایمان و یقین میں ترقی ہوتی ہے اور بندۂ مومن کا دل تقویٰ ، انابت ، خشوع وغیرہ صفات سے متصف ہوتا اور ترقی کرتے ہوئے مرتبۂ کمال کو پہنچتا ہے ۔ صحیح و تندرست دل کے یہ مراتب اور درجات وہ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی مدد و توفیق کے بعد بندہ اپنے اختیار سے طے کرتا ہے ۔
کوئی ابتدائی درجہ ہی پر قناعت کر بیٹھتا ہے تو کوئی ترقی کے منازل طے کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔ انسان کی سعی و کوشش کے سبب ان افعال کی نسبت بندوں کی طرف ہوتی ہے لیکن دلوں کی صفات اور ان پر طاری ہونے والے افعال کی مناسبت سے بعض افعال وہ ہیں جن کی نسبت خاص طورپر اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے ۔ ان میں دلوں کی پاکیزگی اور اس میں ایمان کی زینت بخشنا یعنی دلوں کے سامنے ایمان کو مزین و خوشنما کردینا ہے۔ اﷲ جن کے دلوں کو پاک صاف کردے اور اس میں ایمان کو مزین کردے ، وہی دل ، ایمان و یقین کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں اور پھر ایسے دل والے اﷲ کی توفیق سے مزید ترقی کرتے اور ایمان و یقین کے درجات میں آگے بڑھتے ہیں ۔ قرآن پاک میں طہارتِ قلوب کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف اس طرح آئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور جسے اﷲ گمراہ کرنا چاہے اس کے لئے آپ اﷲ کی جانب سے کچھ بھی نہیں کرسکتے ، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ پاک کرنا نہیں چاہتا ، ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے ‘‘ ( المائدہ41)۔ طہارت و پاکیزگی ، نجاست و غلاظت کی ضد ہے ۔ مادی نجاست و ظاہری گندگیوں کی طرح کفر و شرک اور نفاق بھی دلوں میں پائی جانے والی گندگی اور نجاست ہے چنانچہ اسی مفہوم میں مشرکین کو نجس ( ناپاک ) بھی کہا گیا ( ملاحظہ ہو : التوبہ28) آیت بالا سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ جس کے لئے خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کے دل کو کفر و شرک کی گندگی و خباثت سے پاک کر دیتا ہے ۔ تب یہ دل ایمان کو قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے اورایسے شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھل جاتا ہے اور اﷲ کی توفیق و ہدایت سے اس دل میں ایمان کی روشنی جگمگاتی ہے ۔ ذخیرۂ احادیث میں بہت سی دُعائیں ایسی مروی ہیں جن میں رسول اﷲنے اﷲ تعالیٰ سے اپنے دل کی پاکیزگی طلب کی ہے ۔
دل ، ایمان و یقین کا مرکز اور ہدایت کا سرچشمہ ہے لیکن اس کی بنیاد دلوں کی صفائی اور پاکیزگی ہے۔ اﷲ تعالیٰ جس کے دل کو پاک و صاف کردے ، اس کا سینہ ہدایت کیلئے کھل جاتا ہے۔ طہارتِ ِقلوب کی نسبت اﷲ تعالیٰ نے خاص طورپر اپنی طرف کی ہے کہ اﷲ جن کیلئے چاہتا ہے ، ان کے دلوں کو پاک فرماتا ہے ۔ طہارتِ قلوب کے بعد ، زینت ایمان کا معاملہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس بندہ کیلئے چاہتا ہے اس کے دل میں ایمان کو مزین و خوشنما کردیتا ہے اور ایمان کی محبت اس کے دل میں ڈال دیتا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ کی اس مہربانی کے سبب ایسا شخص ہی نہ صرف ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے بلکہ ایمان کی محبت اس کے دل ، جسم اور ریشہ ریشہ میں ایسی سرایت کرجاتی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا ۔ نہ ماں باپ ، بھائی بہن ، خاندان و قبیلہ کسی کی محبت ایمان و یقین کی بدولت اﷲ و رسول کی محبت پر غالب نہیں آتی ،ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ جو لوگ اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، انھیں آپ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ، چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یاان کے خاندان والے ہوں ، انہی لوگوں کے دلوں میں اﷲ نے ایمان کو راسخ کردیا ہے اوران کی تائید اپنی نصرتِ خاص سے کی ہے اور اﷲ انھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے ، وہی اﷲ کی جماعت کے لوگ ہیں ، آگاہ رہئے کہ اﷲ کی جماعت کے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ ‘‘ (المجادلہ22)۔ دلوں میں ایمان کی محبت اور اسے زینت بخشنے کی نسبت بھی اﷲ تعالیٰ نے خاص طورپر اپنی طرف فرمائی ہے ، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ اور لیکن اﷲ ہی نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا اور تمہارے دلوں میں اس کی زینت و خوبی بٹھادی اور تمہارے لئے کفر و نافرمانی اور گناہ کو ناپسند بنا دیا ، یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔ ‘‘ (الحجرات7)۔
اس میں جہاں صحابہ کرام ؓ کی خوبی اور فضیلت کا بیان ہے ،وہیں یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جس شخص کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کی محبت اور اس کی زینت بٹھادی جائے اسی طرح کفر و معصیت سے نفرت جس کے دل میں اﷲ ڈال دے ، اسی کے لئے ہدایت کے راستے کھلتے ہیں اور وہی ہدایت پر گامزن رہتا ہے ۔ جس بندہ کے دل میں ایمان مزین و خوشنما ہو اور اس کی حقیقت جاگزیں ہو وہ نہ صرف اﷲ کا مطیع و فرمانبردار ہوگا بلکہ بندگی کی راہ میں بڑی سے بڑی مصیبت اور تکلیف و مشقت کو برداشت کرنا بھی اس کیلئے سہل ہوگا۔ دلوں میں ایمان کی زینت کے سبب ہی نیک لوگ درجات کمال میں ترقی کرتے رہتے ہیںـ۔جب یہ چیز بلندیٔ درجات کا زینہ ہے تو بندۂ مومن کو چاہئے کہ وہ اسے اﷲ تعالیٰ سے مانگتا رہے ۔ ایک طویل نبوی دُعاء کا کچھ حصہ اس طرح ہے ، دُعاء کرتے ہوئے اﷲ کے رسول اﷲ نے فرمایا: ’’ اے اﷲ ! ہمارے لئے ایمان کو محبوب بنادے اور اس کی زینت ہمارے دلوں میں بٹھادے اور کفر و نافرمانی اور گناہ کے کاموں سے ہمارے اندر نفرت و کراہیت ڈال دے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنادے۔ ‘‘ اﷲ تعالیٰ جس کیلئے چاہتا ہے اس کے دل میں ایمان کی محبت اور زینت بٹھادیتا ہے۔ ایسے شخص کا دل ہی ہدایت کو قبول کرتا ہے اور وہ ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔
ایمان و یقین اور ہدایت کا سرچشمہ اور مرکز دراصل دل ہی ہے ۔ دل کو ہدایت مل جائے تو باقی سارے اعضائے جسم تو دل کے تابع ہیں اور یہ ہدایت اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق ہی سے ملتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور اس کی طرف سے بڑی رحمت یہی ہے کہ بندہ کو ہدایت نصیب ہوجائے ،اس سے بڑھ کر کوئی فضل اور انعام نہیں چنانچہ ہدایت و رحمت کا ذکر اسی مناسبت سے قرآن پاک میں کئی جگہ ایک ساتھ آیا ہے ، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ یقینا تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانی ہدایت اور رحمت آگئی۔ ‘‘ ( الانعام157) ۔ اہل ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی: ’’ اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں مبتلا نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ،بے شک تُوبڑا عطا کرنے والا ہے۔ ‘‘ ( آل عمران8)۔ دل میں اس بات کی صلاحیت ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ایمان کی طرف مائل ہوجائے یا اس کے ارادہ و مشیت ہی سے کفر کی طرف جھک جائے ۔ ابتداء ًدل میں ہدایت کا اُترنا اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے تو اس پر استقامت اور دل کا ہدایت کی راہ پر قائم رہنا بھی اﷲ کے فضل ہی کا نتیجہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلبِ ہدایت کے ساتھ ساتھ ہدایت پر قائم رہنے اور سیدھے راستہ پر چلتے رہنے کی دُعا سکھائی گئی جو بندۂ مومن نماز کی ہر رکعت میں اﷲ سے مانگتا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد کے طلب گار ہیں ، ہمیں سیدھی راہ دکھائیے اور اس پر قائم رکھئے ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا ، ان لوگوں کا نہیں جن پر کہ آپ کا غضب نازل ہوا اور جو راستہ سے بھٹک گئے ۔ ترمذی کی ایک روایت میں ایک نبوی دُعا اس طرح منقول ہے، حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ کو نماز سے فارغ ہوکر یہ کہتے سنا: ’’ اے اﷲ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی طرف سے اس خاص رحمت کا جس کے ذریعہ آپ میرے دل کو ہدایت دیں۔ ‘‘ (ترمذی ) ۔
یہ دُعا تو آپ بہت زیادہ اﷲ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے : ’’ اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھئے۔‘‘ اُم المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ () !آپ اکثر یہی دُعا مانگا کرتے ہیں (ایسا کیوں ؟ ) ،تو آپ نے فرمایا: ’’ اے اُم سلمہؓ ! کوئی آدمی بھی ایسا نہیں مگر یہ کہ اس کا دل اﷲ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ، جس کیلئے چاہے وہ ( یعنی اﷲ دل کو ) سیدھا رکھے اور جس کیلئے چاہے وہ ( دل کو ) ٹیڑھا کردے۔‘‘ درجِ بالا دُعا رسول اﷲسے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے بھی نقل کی ہے اور صحیح سند سے مختلف کتب ِاحادیث میں مروی ہے ( ملاحظہ ہو : ترمذی، ابن ماجہ) ۔ اﷲ کے رسول کا کثرت سے دُعا کرنا اس لئے تھا کہ دلوں کو ہدایت کا ملنا محض اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے ، قلب کی طرف ہدایت کی نسبت کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ آدمی کو کوئی مصیبت اﷲ کے حکم کے بغیر نہیں پہنچتی اور جو شخص اﷲ پر ایمان رکھتا ہے ، اﷲ اس کے دل کو ہدایت دیتا ( صبر و استقامت کی راہ دکھاتا ) ہے اور اﷲ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔ ‘‘ (التغابن 11)۔
کفار کہا کرتے تھے کہ اگر اسلام برحق دین ہوتا تو اسکے ماننے والوں پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں ؟ اس ضمن میں فرمایا گیا کہ مصیبت کوئی بھی ہو اور اچھے برے مسلمان یا کافر کسی بھی انسان پر نازل ہو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت ہی سے آتی ہے اور اس میں بندۂ مومن کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اسے اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ سمجھ کر ، اس کی قضاء و قدر پر یقین رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے یا جزع وفزع اور شکوہ و شکایت کا راستہ اختیار کرتا ہے ؟ آیت بالا میں ہدایتِ قلب ( دل کی ہدایت ) کے معنی حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓسے یہ منقول ہیں کہ جو اﷲ پر ایمان رکھے، اﷲ اس کے دل کو یقین کی راہ دکھاتا ہے اور وہ بندہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے جو مصیبت پہنچی اسے بہر حال پہنچنا تھا چنانچہ وہ اسے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر اسے قبول کرتا اور اس پر راضی رہتا ہے۔ ایک اور معنی یہ منقول ہیں کہ ایسے لوگوں کے دلوں کو آسائش میں شکر اور آزمائش میں صبر و تحمل کی توفیقِ الٰہی نصیب ہوتی ہے ۔ ہدایت کے معنی راستہ دکھانا اور رہنمائی کرنا ہے یا وہ راستہ اختیار کرنا جو آدمی کو منزلِ مقصود تک پہنچادے۔ قرآن پاک میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے جس کی روشنی میں اہل تفسیر نے ہدایت کی مختلف اقسام اور درجات کی طرف اشارہ کیا۔ ایک تو عمومی ہدایت ہوتی ہے جس میں انسان اور غیر انسان یعنی دیگر غیر عاقل مخلوقات بھی شامل ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ہمارا رب تو وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ، پھر راہ دکھائی۔ ‘‘ (طٰہٰ50)۔ یعنی ہر مخلوق کی بھلائی اور صلاح جس میں ہے اس کی طرف رہنمائی کردی اور یہ اس کی فطرت میں ودیعت کردی۔
ہدایت کی دوسری قسم یا دوسرا درجہ وضاحت و بیان اور خیر و شر کی تشریح و توضیح نیز صحیح و غلط راستہ کی نشاندہی ہے ، جیساکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ بلا شبہ ہم نے اسے ( انسان کو ) راستہ دکھادیا ، اب یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا ۔‘‘ ( الدہر3)۔ اس معنی کے اعتبار سے اﷲ کا رسول بھی ہادی ( راہ دکھانے والا ) ہوتا ہے ، جیساکہ سورۃ الشوریٰ کے اخیر میں فرمایا گیا کہ آپ () صراط ِمستقیم یعنی اﷲ کے راستہ کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں ۔ ہدایت کے ایک معنی اور اس کا اہم درجہ یہ بھی ہے کہ کسی کو قبول ہدایت کی توفیق دیدی جائے اور ہدایت اس کے دل میں اُتار دی جائے۔ اس معنی کے لحاظ سے قرآن پاک میں کئی جگہ فرمایا گیا کہ ہدایت کا دینے والا صرف اﷲ تعالیٰ ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اﷲ کا رسول بھی جسے چاہے ہدایت نہیں دے سکتا ( ملاحظہ ہو : فاطر، 8 القصص 56)۔