پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں ایسیٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ و سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کردیا گیا۔
بیرسٹر شہزاد اکبر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔ وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق بیرسٹر ضیا المصطفیٰ نسیم کا نام بھی ای سی ایل پر ڈال دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’ ملک ریاض کے پیسے سپریم کورٹ میں جمع ہوں گے‘Node ID: 446831
-
برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کیا ہے اور یہ کن جرائم کو پکڑتی ہے؟Node ID: 604326
-
شہزاد اکبر کے تین برس، احتسابی عمل میں کیا کچھ ہوتا رہا؟Node ID: 638266
دونوں کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی برطانیہ میں منجمد رقم عدالت سے باہر تصفیہ کے ذریعے پاکستان لاکر قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے بحریہ ٹاون پر عائد جرمانے کی مد میں سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا الزام ہے۔
وفاقی کابینہ ان دو افراد کے علاوہ بھی دیگر آٹھ افراد کے نام ای سی ایل پر ڈالے جن کی سفارش سکیورٹی اداروں کی جانب سے کی گئی تھی، تاہم شہزاد اکبر کا نام نیب کی درخواست پر ای سی ایل پر ڈالا گیا۔
وفاقی کابینہ نے سابق سینیٹر گلزار خان کے بیٹے عمار خان کو ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، ان کے خلاف بھی نیب میں بدعنوانی کا کیس چل رہا ہے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب بھی رہے۔
کابینہ نے اس معاملے پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی تھی جس کی رپورٹ کابینہ اجلاس میں پیش کی گئی۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے برطانیہ میں منجمد 41 ارب روپے کے حوالے سے عدالت سے باہر تصفیہ، رقم کی واپسی اور کابینہ اجلاس میں رقم بحریہ ٹاؤن کو واپس دینے کی منظوری میں شہزاد اکبر اور ایسٹ ریکوری یونٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اس کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تحریک انصاف کی سابق حکومت کی ملک ریاض سے ضبط رقم کو پاکستان منتقل کرنے کے حوالے سے ڈیل کے بارے میں ایک خفیہ دستاویز منظرعام لائے تھے اور اس حوالے سے تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/August/37246/2022/malik_riaz_wikipedia.jpg)
وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے مبینہ طور پر 19 کروڑ پاؤنڈز (50 ارب روپے) کے ضبط شدہ فنڈز کی واپسی کے لیے کک بیکس کی مد میں 5 ارب روپے لیے جو مبینہ طور پر برطانیہ بھیجے گئے تھے۔‘
وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ برطانیہ سے آنے والی رقم کی منتقلی کے عوض معاہدے کے تحت بحریہ ٹاؤن نے 458 کنال قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی۔‘
’اس معاہدے پر بحریہ ٹاؤن کے ساتھ دستخط کرنے والی شخصیت سابق خاتون اول بشریٰ بی بی تھیں کیونکہ القادر ٹرسٹ کے 2 ہی ٹرسٹی ہیں ایک عمران خان اور دوسری بشریٰ بی بی۔‘
وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ ’القادر ٹرسٹ کی طرح بشریٰ بی بی کی دوست فرحت شہزادی کو بھی بنی گالہ میں 240 کنال زمین دی گئی۔‘
خفیہ دستاویزات میں کیا تھا؟
حکومت کی جانب سے جو دستاویزات منظرعام پر لائی گئیں ان دستاویزات میں سے اس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل ہے۔
اس نوٹ کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکورٹی یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی۔
![](/sites/default/files/pictures/August/37246/2022/imran_khan_cabinet.png)
اس نوٹ کے مطابق ’14 دسمبر 2018 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پاکستانی شہریت رکھنے والے علی ریاض ملک اور مبشرہ ملک کے 20 ملین برطانوی پاؤنڈ مشکوک ٹرانزیکشن کے تحت منجمد کیے۔
اس کے بعد این سی اے نے مذکورہ شہریوں کے خلاف کیسز، انکوائریز اور تحقیقات کے حوالے سے تفصیلات کے لیے رابطہ کیا۔ ایسیٹ ریکوری یونٹ اور دیگر متعلقہ اداروں نے برطانوی ایجنسی کو متعلقہ ریکارڈ اور تفصیلات فراہم کیں۔‘
شہزاد اکبر کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے نوٹ کے مطابق ’نیشنل کرائم ایجنسی نے مذکورہ خاندان کے بینک اکاؤنٹس اور حال ہی میں لندن میں خریدی گئی وین ہائیڈ پراپرٹی سے متعلق تفتیش کا آغاز کیا۔
’نتیجتاً 12 اگست 2019 کو این سی اے نے مذکورہ خاندان کے برطانیہ کے مختلف بینک اکاؤنٹس میں موجود 119 ملین برطانوی پاؤنڈ بھی منجمد کردیے۔‘
وزیراعظم کو لکھے گئے نوٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس دوران سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے خلاف قواعد زمین کے حصول سے متعلق کیس کا فیصلہ بھی دیا جس میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کو مقررہ مدت میں رقم جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/August/37246/2022/nca.jpg)