ایک شخص نے جوازات سے دریافت کیا ’6 برس قبل ہروب کے کیس میں ڈی پورٹ ہونے کے بعد اب دوسرے ویزے پرآسکتے ہیں؟‘
سوال کے جواب میں جوازات کا کہنا تھا کہ ’ہروب کیس میں یا کسی اور وجہ سے ڈی پورٹ ہونے والے مملکت میں تاحیات بلیک لسٹ ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد سعودی عرب میں کسی بھی دوسرے ورک ویزے پرمملکت نہیں آسکتے وہ صرف عمرہ یا حج کی ادائیگی کےلیے ہی مملکت آسکتے ہیں۔
واضح رہے گزشتہ برس سے مملکت میں امیگریشن کا نیا قانون جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق وہ افراد جنہیں مملکت سے شعبہ ترحیل کے ذریعے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے کو ہمیشہ کےلیے مملکت میں بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔
ایسے افراد تاحیات مملکت میں کسی بھی ورک ویزے پرنہیں آسکتے وہ صرف عمرہ یا حج کی ادائیگی کے لیے ہی سعودی عرب آسکتے ہیں۔
گزشتہ برس سے نافذ ہونے والے امیگریشن قانون سے قبل شعبہ ترحیل کے ذریعے جانے والے افراد کو محدود مدت کےلیے بلیک لسٹ کیاجاتا تھا۔
ماضی میں جن افراد کومملکت سے ڈی پورٹ کیاجاتا تھا ان کے بارے میں کیس کے تحقیقاتی افسرکی جانب سے اس امرکی نشاندہی کردی جاتی تھی کہ مذکورہ افراد پرمعینہ مدت کےلیے مملکت میں داخل پرپابندی عائد کی جاتی ہے۔
بیشتر اوقات پابندی کی مدت 3 سے 10 برس ہوا کرتی تھی۔ ڈی پورٹ ہونے والے غیر ملکی مذکورہ مدت گزارنے کے بعد دوبارہ دوسرے ویزے پرمملکت آسکتے تھے۔
نئے قانون کے نفاذ کے بعد وہ افراد جنہیں ماضی میں مملکت سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا اب تاحیات کسی بھی ورک ویزے پرمملکت نہیں آسکتے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امیگریشن کا نیا قانون گزشتہ برس ہی نافذ کیا گیا ہے اس لیے وہ اس زمرے میں شامل نہیں ہوتے۔ یہ تاثر یا خیال غلط ہے کیونکہ ڈی پورٹ ہونے والے خواہ اس سال گئے ہوں یا دس برس قبل ان پرنئے قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ تاحیات مملکت میں کسی بھی نئے ورک ویزے پردوبارہ نہیں آسکتے۔