Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیلاب سے لاکھوں جانور ہلاک، ’دودھ اور گوشت کی قلت ہو سکتی ہے‘

حال ہی میں پاکستان میں لمپی سکن بیماری سے بھی جانور ہلاک ہوئے ہیں (فوٹو: شٹرسٹاک)
پاکستان میں لمپی سکن بیماری سے لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت کے بعد اب سیلاب سے بھی سات لاکھ 20 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔  
ڈیری اینڈ کیٹلز فارمرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ لمپی سکن بیماری کے بعد سیلاب سے لاکھوں جانوروں کی ہلاکت سے آنے والے دنوں میں دودھ اور گوشت کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔  
این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والے مویشیوں میں بلوچستان میں سب سے زیادہ پانچ لاکھ، پنجاب میں دو لاکھ سے زائد، سندھ میں 15 ہزار اور خیبر پختونخوا میں 1200 سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔  
یہ اعداد وشمار مقامی انتظامیہ کی جانب سے این ڈی ایم کو بھجوائے جا رہے ہیں جبکہ جن علاقوں میں سیلابی صورت حال خطرناک ہے وہاں کے اعداد وشمار ابھی پہنچ بھی نہیں پا رہے جس کے باعث یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے مویشیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔  

سیلاب کے باعث ابھی تک سوا لاکھ کے قریب جانور ہلاک ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

مالی سال 2021-22 کے اقتصادی سروے کے مطابق لائیو سٹاک کا شعبہ پاکستان کی زرعی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کا 61 فیصد حصہ ہیں جبکہ پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی میں لائی سٹاک کا حصہ 14 فیصد ہے۔ پاکستانی کی دیہی آبادی کے 80 لاکھ خاندان مویشی پالتے ہیں۔ ان کی آمدن کا 35 سے 40 فیصد حصہ مال مویشی سے حاصل ہونے والی آمدن سے حاصل ہوتا ہے۔  
گزشتہ مالی سال کے دوران اگرچہ لائیو سٹاک کے شعبہ میں تین فیصد تک بہتری آئی تھی اور مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس شعبہ کے فروغ کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے تھے۔
حکام کے مطابق ’سیلاب سے اتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی ہلاکت کے بعد دور دراز کے دیہی علاقوں کے مویشی پال کر گزارہ کرنے والے خاندانوں کی معاشی حالت مزید ابتر ہو جائے گی اور ملکی سطح پر اس شعبہ میں آنے والی بہتری کو بھی دھکچکا پہنچا ہے۔‘  
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کے دوران بھی حکومتی اور نجی شعبہ پر انسانوں کو ریسکیو کرنے کے اقدامات تو کیے جاتے ہیں لیکن مویشیوں کے حوالے سے اقدامات بھی متاثرین کو خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر طرف پانی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے چارہ اور خوراک بھی ضائع ہو جاتا ہے اس وجہ سے وہ بھوک سے نڈھال ہو جاتے ہیں۔  
کچھ اداروں اور امدادی تنظیموں کی جانب سے اگرچہ اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اقدامات ابھی تک ناکافی ہیں۔  

پاکستان کی دیہی آبادی کے 80 لاکھ خاندان مویشی پالتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان میں امدادی کاموں میں مصروف ایک رضا کار نصیر کاکڑ نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے مویشی مر جانے سے بہت سے لوگوں کو بنیادی روزگار کا ذریعہ ہی ختم ہو گیا ہے۔
پانی کے ریلوں میں بہتے جانور دیکھ کر لوگ دھاڑیں مار کر روتے رہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو جانور بارشوں کے باعث بیمار ہو کر یا چھتوں تل دب کر مر گئے ان کے تعفن نے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ 
ڈیری اینڈ کیٹلز فارمنگ ایسوسی ایشی کے مطابق ’اس وقت پاکستان میں آٹھ کڑور سے زائد گائیں بھینسیں جن کی مالیت 16000 ارب سے زائد بنتی ہے اور یہ ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ان سے روزانہ پاکستان کو 13 کڑور لیٹر دودھ فراہم ہوتا ہے جس کی مالیت 13 ارب یومیہ جبکہ  4745 ارب سالانہ بنتی ہے۔‘  ایسوسی ایشن کے چیف آرگنائزر  شہباز رسول وڑائچ نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پاکستان میں اگرچہ مویشیوں کی درست تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کیونکہ 2006 کے بعد جانوروں کی گنتی نہیں کی گئی لیکن حکومتی تخمینوں کے مطابق ملک کے کل لائیو سٹاک کا 70 فیصد حصہ پنجاب سے ہے اور جانور پالنے والوں کا 85 فیصد چھوٹے فارمرز جن کے پاس دو سے 10 جانور ہیں پر مشتمل ہے۔‘ 

ڈیری اینڈ کیٹلز فارمنگ ایسوسی ایشن کے مطابق جانوروں کی ہلاکت سے دودھ اور گوشت کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’لمپی سکن سے چار کروڑ جانور متاثر ہوئے ایک اندازے کے مطابق اس بیماری سے مرنے والے جانوروں کی شرح دس فیصد تھی۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’رہی سی کسر سیلاب نے نکال دی ہے جس کے باعث کسان تو مر ہی گیا ہے۔ جانور بہہ گئے یا مر گئے۔ بھوسے کی شکل میں ذخیرہ کی گئی خوراک بھی ضائع ہو گئی اور فصلیں تو بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
ان کے بقول ’ان تمام نقصانات کو جمع کریں تو تخمینہ اربوں روپے ہوگا، جس کا لامحالہ اثر ملکی معیشت پر پڑے گا۔ جو صورت حال بن گئی ہے اگلے دس سال بھی اس کے اثرات سے باہر نکلنا مشکل ہوگا۔  خدشہ ہے کہ ملک میں دودھ اور گوشت کی قلت پیدا ہو جائے۔‘  
ان کے مطابق ’اب بھی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ’سیلاب اور بارشوں سے سات لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک جانور کے مرنے سے جہاں سے دو سے چار لاکھ روپے کا یک مشت نقصان ہوتا ہے وہیں اس جانور سے روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والی آمدن اور اس کی نسل آگے بڑھنے سے مالک کو ہونے سالانہ منافع کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے۔‘

شیئر: