Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مویشیوں کی بیماری ’لمپی سکن‘ کا پھیلاؤ، بیرون ملک سے ویکسین درآمد کرنے کا فیصلہ

عوام الناس میں پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈے پر اخبارات میں اشتہارات اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی جائے گی (فائل فوٹو: روئٹرز)
سندھ میں شروع ہونے والی مویشیوں کی بیماری لمپی سکن ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مشترکہ حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے جس میں صوبوں میں مویشیوں کی نقل و حمل پر پابندی اور بیماری کے خلاف ویکسین کی درآمد سمیت متعدد اقدامات پر غور کیا گیا۔
یاد رہے کہ نومبر 2021 میں بیماری کا پہلا کیس سندھ میں رپورٹ ہوا تھا اس کے بعد ہزاروں جانور اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔
جمعرات کو اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے صوبائی وزرا اور ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ بیماری پاکستان میں پہلی بار آئی ہے تاہم ابھی تک یہ صرف گائے یا کسی حد تک بھینسوں تک محدود ہے جبکہ بکریوں، بھیڑوں اور انسانوں میں اس کے پھیلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
’تاہم بیماری کے باعث سندھ میں گوشت کی کھپت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے اور دودھ اور مرغی کی قیمت میں اضافہ بھی ہوگیا ہے۔‘
ملکی سطح پر روک تھام کے لیے اقدامات
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بدھ کو فوڈ سکیورٹی کے وفاقی وزیر فخر امام کی زیر صدارت ملک بھر کے لائیوسٹاک کے وزرا اور متعلقہ حکام نے ویڈیو اجلاس میں شرکت کی جس میں قربانی کی عید سے قبل ملک بھر میں اس مرض کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں صوبوں کے درمیان مویشیوں کی نقل و حمل پر پابندی پر غور کیا گیا جبکہ سرکاری سطح اور نجی شعبےکو ویکسین و ادویات درآمد کرنے کی اجازت دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عوام الناس میں پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈے پر وفاقی اور صوبائی سطح پر اخبارات میں اشتہارات اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی جائے گی۔
میونسپل کارپوریشن کی سطح پر مچھر و مکھی مار سپرے مہم شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں سندھ حکومت نے پنجاب سے 2000 ہزار وائل گوٹ پاکس ویکسین منگوانے کا بتایا۔

ڈی جی نیشنل ویٹرنری لیبارٹریز کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ملک بھر میں مویشیوں کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ ویکسین گو اس مرض کی نہیں تاہم اس کی زیادہ خوراک سے اس مرض پر بھی قابو پانے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) اس مرض کی ویکسین کی ہنگامی منظوری دے گی۔ مرض کے باعث رواں سال پنجاب میں ہونے والے مویشی شو میں بھی سندھ سے جانوروں کو لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
سندھ کی صورت حال
دوسری طرف سندھ بھر میں مویشی منڈیوں پر محکمہ بلدیات کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تھی تاہم اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سندھ کے لائیو سٹاک اور فشریز کے وزیر عبدالباری پتافی نے بتایا کہ آج حکومت نے یہ پابندی ہٹالی ہے اور صرف گائے کو منڈی میں لانے پر پابندی ہے جبکہ باقی جانوروں کی خریدوفروخت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سندھ میں اب تک صرف صفر اعشاریہ دو فیصد جانور اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ بیمار ہونے والے مویشیوں میں بھی صرف صفر اعشاریہ تین فیصد میں اموات ہوئی ہیں۔‘

 ’اس بیماری سے دودھ، گوشت اور مویشیوں کے مالکان اور دیگر انسانوں میں منتقل ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

’لمپی سکن کے حوالے سے سندھ کی صوبائی ٹاسک فورس کے اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ کراچی اس مرض سے متاثر ہوا ہے جہاں 15 ہزار سے زائد جانور اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ صوبے بھر میں متاثرہ جانوروں کی تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ ہے تاہم اموات کی تعداد کراچی میں صرف 18 جبکہ صوبے بھر میں 100 کے قریب ہے۔
صوبائی وزیر برائے لائیو سٹاک کا کہنا تھا کہ ’سندھ نے پنجاب سے درخواست کی ہے کہ جانوروں کی آمد پر پابندی نہ لگائی جائے کیونکہ گائے وغیرہ پنجاب سے سندھ جاتی ہیں آتی نہیں اس لیے مرض پھیلنے کا خدشہ نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ سے بکریاں اور چھوٹے جانور پنجاب آتے ہیں جو بیماری سے کسی طرح متاثر نہیں ہیں۔ پنجاب نے گو کہ تحریری طور پر سندھ سے آنے والے جانوروں پر پابندی عائد نہیں کی تاہم زبانی احکامات کے تحت پنجاب کی سرحد پر سندھ سے آنے والے جانوروں کو روکا جا رہا ہے۔‘
صوبائی وزیر کے مطابق ’لمپی سکن بیماری پاکستان میں اب آئی ہے لیکن جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں اس کی تاریخ کی 100 سال پرانی ہے اور صرف گائے میں پائی جاتی ہے۔ آج تک اس کا انسانوں یا دوسرے جانوروں میں پھیلنے کا خدشہ سامنے نہیں آیا۔‘

ماہرین کا کہنا تھا کہ ’یہ بیماری پاکستان میں پہلی بار آئی ہے اور صرف گائے یا کسی حد تک بھینسوں تک محدود ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

پنجاب اور دیگر صوبوں کی صورت حال
پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے بھی مرض پر قابو پانے کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کردیا ہے اور اس سلسلے میں لائیو سٹاک کے محکموں نے متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے سیکریٹری لائیو سٹاک نوید شیرازی کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں سندھ سے لائیو سٹاک کی آمد پر کوئی تحریری پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فی الحال صوبے میں لمپی سکن کے کوئی کیسز سامنے نہیں آئے اور اس حوالے سے صورت حال مکمل قابو میں ہے۔‘
دوسری طرف ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان کے سینٹرل پنجاب چیپٹر کے صدر محمد خان بھٹی نے اپنے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ ’پنجاب 70 فیصد لائیوسٹاک کا مالک ہے، جلدی بیماری اگر یہاں آئی تو دو ماہ میں پورے ملک کو لپیٹ میں لے لے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فی الحال پنجاب کے کسانوں نے اپنے طور پر سمگل شدہ ویکسین استعمال کی اور اپنے قیمتی جانوروں کی جان بچائی۔‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’پنجاب حکومت ہارس اینڈ کیٹل شو منسوخ کرے۔‘

سندھ کے ڈی جی لائیوسٹاک کا کہنا ہے کہ ’لمپی سکن بیماری کی تاریخ 100 سال پرانی ہے جو صرف گائے میں پائی جاتی ہے‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

دوودھ اور گوشت سے بیماری نہیں پھیلتی
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈی جی نیشنل ویٹرنری لیبارٹریز ڈاکٹر آغا وقار کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ملک بھر میں مویشیوں کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے جلد ویکسین ملک میں پہنچ جائے گی تاہم ویکیسن کے نہ آنے کی وجہ سے بیماری نہیں پھیل رہی بلکہ اس کے زیادہ پھیلنے کی وجہ کسانوں کی جانب سے گھبراہٹ میں سمگل شدہ غلط ویکسین کا استعمال ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک متبادل ویکسین جو پہلے ہی پاکستان میں موجود ہے وہ بھی کسی حد تک اس بیماری کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ گوٹ پاکس نامی ویکسین کی مخصوص ڈوز سے مرض کے قابو میں فائدہ سامنے آیا ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’لمپی سکن ڈیزیز (LSD) مچھر وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ میزبان جانور کے علاوہ آگے نہیں پھیلتی۔ اس سے متاثرہ جانور سے آج تک کسی کسان کو مرض نہیں ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بیماری دودھ اور گوشت سے نہیں پھیلتی نہ ہی انسانوں میں جانوروں کی قربت سے پھیلتی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق ’ماضی میں اس بیماری نے بھیڑ، بکری و دیگر گھریلو اور جنگلی جانوروں کو متاثر نہیں کیا‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

 ’تاہم یہ بیماری کہاں سے پاکستان آٗئی اس پر ابھی تحقیق ہو رہی ہے اور چند دنوں میں معلوم ہوجائے گا۔‘
سندھ کے ڈی جی لائیوسٹاک ڈاکٹر نذیر کلہوڑو کے مطابق لمپی سکن بیماری مخصوص ہے جس نے سندھ میں صرف مویشیوں کو متاثر کیا۔ لمپی سکن بیماری کی تاریخ 100 سال پرانی ہے جو صرف گائے میں پائی جاتی ہے۔‘
’ماضی میں اس بیماری نے بھیڑ، بکری و دیگر گھریلو اور جنگلی جانوروں یا دوسری نسل کو متاثر نہیں کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس بیماری سے دودھ، گوشت اور مویشیوں کے مالکان اور دیگرانسانوں میں منتقل ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘

شیئر: