پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے نو اضلاع متاثر ہوئے جن میں سوات کی ہوٹل انڈسٹری کے لحاظ بری طرح متاثر ہوئے۔ ضلعی انتظامیہ سوات کے مطابق سوات میں مجموعی طور پر 61 ہوٹلوں کو نقصان پہنچا۔
محکمہ آب پاشی سوات کے سابق انجنیئر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بحرین، مدین اور کالام کے بیش تر ہوٹل تجاوزات کر کے تعمیر کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2010 کے سیلاب میں یہ ہوٹل تباہ ہوئے تھے اور انہیں دریا کے راستے میں رکاوٹ قرار دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود وہ ہوٹل تعمیر کیے گئے۔
مزید پڑھیں
-
ڈیمز سیلاب آنے کا خطرہ کم کرتے ہیں یا اسے مزید بڑھاتے ہیں؟Node ID: 698401
سابق انجنیئر بہادر علی خان نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ ایریگیشن اور ضلعی انتظامیہ نے 2020 میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی جبکہ 2021 میں ہمیں پھر آپریشن کی نگرانی کے لیے بلایا گیا۔
بہادر علی نے بتایا کہ کالام میں بیش تر عمارتیں تجاوزات میں شامل تھیں جن میں ہنی مون ہوٹل بھی شامل تھا۔
’ہم نے چھ سے سات بڑے ہوٹلوں کے خلاف آپریشن کیا اور ان کے تین سے چار فٹ تجاوزات مسمار کیے گئے۔
’بااثر افراد نے فون کال کے ذریعے آپریشن رکوا دیا‘
سابق افسر ایریگیشن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہوٹلوں مالکان اتنے بااثر تھے کہ ایک فون کال کے ذریعے آپریشن کو تین دن تک روکنا پڑا۔ اس کے بعد محکمہ ایریگیشن کی مداخلت پر کام دوبارہ سے شروع ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر عمارتیں دریا کے پانچ سے 10 فٹ آگے تجاوز کر کے قائم کی گئی تھیں۔‘
انجنیئر بہادر علی نے بتایا کہ ’جب ہم واپس آرہے تھے تو بائیک کی بریک نے کام چھوڑ دیا۔ ہم بہت مشکل سے واپس مٹہ پہنچے۔ ہمیں شک تھا کہ ہوٹل مالکان کی جانب سے یہ انتہائی اقدام اٹھایا گیا کیونکہ ہماری وہاں موجودگی سے وہ پریشان تھے ۔‘
’آپریشن کے دوران ہمارے خلاف مقامی لوگوں کو اکٹھا کیا گیا۔ ہمیں دھمکانے کی کوشش بھی کی گئی۔‘

انجنئیر بہادر علی خان نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ’گزشتہ دور حکومت میں اہم عہدے پر فائز رہنے والی سیاسی شخصیت کا ہوٹل بھی تجاوزات میں شامل ہے۔‘
’ایسے لوگ ہوٹلوں کے مالک ہیں جن کے آگے ضلعی انتظامیہ بھی بے بس ہے۔‘
بہادر علی نے اپنی رپورٹ میں ریور پروٹیکشن ایکٹ سے متعلق سوال بھی اٹھایا کہ اس ایکٹ کے تحت دریا سے 200 فٹ تک تعمیرات پر پابندی ہے تو پھر کس نے ہوٹل مالکان کو تعمیرات کی اجازت دی۔
انہوں نے دوسرا سوال یہ اٹھایا کہ ’کالام کا پورا گاؤں 200 فٹ ہوگا تو یہ ایکٹ یہاں کیسے لاگو ہوگا؟‘
’خیبر پختونخوا ریور پروٹیکشن ایکٹ‘ کیا ہے؟
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں 2014 میں ’خیبر پختونخوا ریور پروٹیکشن ایکٹ‘ کے نام سے ایک قانون اسمبلی سے پاس ہوا جس کے تحت دریا کے کنارے 20 فٹ تک کسی قسم کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس ایکٹ کے مطابق کسی بھی دریا کے کنارے دونوں جانب کمرشل، نان کمرشل یا کسی بھی عمارت کی تعمیر پر پابندی ہو گی۔
بعدازاں 2016 میں ریور پروٹیکشن ایکٹ میں ترامیم بھی کی گئی تھیں۔
تمام دریاوں سے متعلق رپورٹ تیار کررہے ہیں: وزیر آب پاشی
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر آب پاشی ارشد ایوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ریور پروٹیکشن ایکٹ کا بل محکمہ ماحولیات کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جس پر عمل درآمد کرنا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔
’ہم صرف تجاوزات کی نشاندہی کریں گے۔ اس کے خلاف کارروائی لوکل ایڈمنسٹریشن کا کام ہے۔‘
’ہم نے دریائے سوات پر 99 عمارتوں کی نشاندہی کرکے رپورٹ تیار کرلی ہے جو کہ دریا کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ یہ رپورٹ ہم نے متعلقہ حکام کو ارسال کردی ہے۔‘
ان کے بقول ’وزیراعلیٰ محمود خان کی خصوصی ہدایات پر ہم تمام دریاوں سے متعلق رپورٹ تیار کررہے ہیں جس میں کاغان، ناران، چترال اور دیگر مقامات شامل ہیں۔‘
