خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق انڈین حکومت نے ایک بیان میں سرحد سے افواج کے پیچھے ہٹنے کی تصدیق کی ہے۔
افواج کے جنگی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کا یہ بیان اگلے ہفتے ازبکستان میں ہونے والے اس اجلاس سے قبل آیا ہے جہاں چینی صدر شی جن پنگ اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات بھی متوقع ہے۔
انڈیا نے کہا ہے کہ سرحدی علاقے سے افواج کی واپسی ایک مربوط اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہی ہے اور اس کا مقصد سرحد پر امن برقرار رکھنا ہے۔
جون 2020 میں لداخ کے گالوان علاقے میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ تب سے اب تک دونوں ممالک کے سینیئر فوجی کمانڈروں کے درمیان مذاکرات کے 16 دور ہو چکے ہیں۔
اس علاقے میں جھڑپوں کے دوران کم از کم 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
جھڑپوں کے بعد انڈیا نے لداخ میں تقریباً 50 ہزار فوجیوں کو چینی افواج کے مقابل منتقل کیا، جن میں سے کچھ 15 ہزار فٹ سے زیادہ کی اونچائی پر ہیں، جہاں آکسیجن کی کمی اور سردیوں کا درجہ حرارت جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
دونوں ملکوں میں افواج کو ایک دوسرے کے قریب سے پیچھے ہٹانے کے معاہدے کے بعد چینی فوجیوں نے لداخ میں پینگونگ تسو جھیل کے کنارے سے تمام کیمپوں کو خالی کرنے کے لیے بنائے گئے درجنوں ڈھانچوں کو توڑ دیا اور گاڑیوں سمیت منتقل ہو گئے۔
انڈیا اور چین کے درمیان 3800 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر کسی بھی آتشیں اسلحے کے استعمال سے بچنے کے لیے پہلے طویل عرصے سے قائم پروٹوکول کی پابندی کرتی تھیں۔