انڈین ریاست پنجاب کے شہر چندی گڑھ میں یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں لڑکیوں کی مبینہ طور پر نازیبا ویڈیوز لیک ہونے پر احتجاج جاری ہے۔
انڈین چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق احتجاج کی شدت بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر ہاسٹل انتظامیہ نے داخلی دروازے بند کردیے تھے تاکہ مزید لڑکیوں کو احتجاج میں شامل ہونے سے روکا جاسکے۔
انڈین میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز میں کچھ لڑکیوں کو احتجاج میں شامل ہونے کے لیے دروازے پھلانگتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ احتجاج سنیچر کی رات اس وقت شروع ہوا جب چندی گڑھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک طالبہ کی مبینہ نازیبا ویڈیو لیک ہونے پر خودکشی کی خبریں گردش کرنے لگیں۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا کے بزنس مین گوتم ادانی ایشیا کے سب سے امیر شخص؟Node ID: 701446
-
نریندر مودی کی سالگرہ، نمیبیا سے چیتے انڈیا پہنچ گئےNode ID: 701606
سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں میں یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ہاسٹل میں رہنے والی ایک لڑکی کے فون سے تقریباً 60 لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔
تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بیان میں طالبات کی ویڈیوز بننے یا خودکشی کی کوشش سے متعلق چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی لڑکی کی کوئی نازیبا ویڈیو نہیں بنائی گئی سوائے ایک لڑکی کے جس نے خود ویڈیو بنائی اور اپنے دوست سے شیئر کی۔‘
پولیس نے اپنی ویڈیو شیئر کرنے والی طالبہ کو گرفتار کرلیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذاتی ویڈیوز ہماچل پردیش میں ایک شخص کو بھیجی تھیں۔
انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق پنجاب کے سینیئر پولیس افسر گرپریت دیو کا کہنا ہے کہ ’تقریباً چار ہزار طالبات ہاسٹل میں رہتی ہیں اور ان میں سے ایک کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار لڑکی کا فون سائبر کرئم ونگ کو مزید تحقیقات کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اور بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ایک لڑکی کو باقی لڑکیوں کے سامنے یہ اعتراف کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ ’میں نے ویڈیو بنائی تھی اور ساتھ ہی ڈیلیٹ کردی تھی۔‘
انہوں نے لڑکیوں کے استفسار پر یہ بھی بتایا کہ کسی باہر کے لڑکے نے ان سے ویڈیو بنانے کا کہا تھا لیکن وہ اس لڑکے کو نہیں جانتیں۔
انہوں نے اپنے موبائل میں ایک لڑکے کی تصویر بھی دکھائی جس نے بقول ان کے انہیں ویڈیو بنانے کے لیے کہا۔
Chandigarh University case.
Himachal Pradesh Police reacted to request of Punjab Police with sensitivity & professionalism.
We nabbed the accused.
Congrats to Dr Monika, SP Shimla & her team for great professional work. @CMOFFICEHP @jairamthakurbjp @PunjabPoliceInd
— Sanjay Kundu, IPS (@sanjaykunduIPS) September 18, 2022