ایران نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد دو دن بعد آمدروفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بحال کردی۔
تفتان میں بارڈر امیگریشن پر تعینات پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایرانی حکام نے دو روز تک پاکستان سے آنے والے افراد کا داخلہ بند کردیا تھا جبکہ تجارتی سامان سے لدے ٹرکوں کو بھی روک لیا گیا تھا تاہم ایران سے پاکستان آنے والوں کی امیگریشن جاری تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سنیچر اور اتوار کو سرحد بند رہی ۔ پیر کو ایرانی حکام نے سرحد واپس کھول دی جس کے بعد پیدل اور تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی آمدروفت بحال ہوگئی۔‘
ایف آئی اے افسر کے مطابق ’پیر کو ایران سے 1036 افراد پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ 621 افراد ایران گئے۔‘
مزید پڑھیں
-
کوئٹہ میں بیویوں اور بچوں میں ’تفریق‘ پر باپ بیٹے کے ہاتھوں قتلNode ID: 706096
خیال رہے کہ ایرانی حکومت نے پاکستان سے ملحقہ ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے باعث پاکستان ایران تفتان سرحد بند کردی تھی۔
جمعے کو ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان و بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے بعد پورے صوبے میں مظاہرے اور فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
ایران سے واپس آنے والے ایک پاکستانی شہری نے تفتان سے ٹیلی فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’زاہدان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اب تک حالات کشیدہ ہیں۔‘
’انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔ سڑکوں پر سکیورٹی فورسز کے دستے بھاری اسلحہ کے ساتھ گشت کررہے تھے۔ رات کے اوقات میں ہم نے فائرنگ کی آوازیں بھی سنیں۔‘

سیستان و بلوچستان شیعہ اکثریتی ایران کا بلوچ اور سنی اکثریتی صوبہ ہے جس کی سرحد پاکستان سے لگتی ہے۔ صوبے کے دارالحکومت زاہدان کے مرکز میں واقع مکی مسجد میں نماز جمعے کے بعد جمع ہونے والے مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں تصادم ہوا۔
رپورٹس کے مطابق مظاہرین گذشتہ ماہ ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں ایک ایرانی پولیس افسر کی جانب سے 15 سالہ بلوچ لڑکی کی عصمت دری اور حجاب نہ پہننے پر ایرانی اہلکاروں کے ہاتھوں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کے قتل کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
فورسز کی فائرنگ سے ہلاکتوں کے بعد احتجاج زاہدان سمیت بلوچ اکثریتی صوبے کے کئی حصوں میں پھیل گیا۔ زاہدان کے مرکزی حصے میں مشتعل افراد نے کئی دکانوں، مارکیٹوں، گاڑیوں اور سرکاری و عوامی املاک کو آگ لگادی۔
خبر رساں ادارے رسانک کے مطابق زاہدان سمیت سیستان و بلوچستان کے کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ صوبائی حکومت نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر زاہدان، میر جاوہ، نصرت آباد سمیت کئی شہروں میں دو دن کے لیے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق صوبے میں حالات اب تک معمول پر نہیں آسکے اور اتواراور پیر کو بھی زاہدان کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ بلوچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین دنوں میں مزید 10 سے زائد افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اب تک 50 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سیستان و بلوچستان کی حکومت نے جمعے کو ہونے والی جھڑپوں میں 19 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی جبکہ پاسداران انقلاب کے حامی خبر رساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق جھڑپوں میں پاسداران انقلاب کے صوبائی ڈپٹی انٹیلی جنس افسر حامد رضا ہاشمی عرف علی موسوی سمیت پانچ سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے۔
ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی حکام کا الزام ہے کہ نماز جمعہ میں چاہ بہار واقعے سے متعلق پیش امام کی تقریر کے بعد مظاہرین مشتعل ہوئے اور انہوں نے مسجد کے قریب ہی واقع پولیس سٹیشن کا گھیراؤ کرکے پتھراؤ شرو ع کردیا۔
