پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وزیر اعلٰی پرویزالٰہی کی حکومت کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے اردو نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ اگر عمران خان لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں تو پنجاب حکومت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا پنجاب حکومت لانگ مارچ میں حصہ لینے والوں کو سہولیات فراہم کرے گی؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’دیکھیں سہولیات نہیں دی جائیں گی۔ ہم سرکاری وسائل استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ حکومت کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں
-
چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کی بیوروکریسی کو کیسے قابو کیا؟Node ID: 703421
وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر بطور ہوم منسٹر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں توہمارا کام یہ ہو گا کہ جتنے لوگ بھی لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے ہم انہیں سیکیورٹی مہیا کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ایک جم غفیر ہو گا تو اس میں لوگوں کو سکیورٹی دینا بہت ضروری ہے۔ تمام سڑکیں جام ہو جائیں گی تو ہم نے زندگی کے دیگر معمولات بھی چلانے ہیں۔ اشیا کی آمد و رفت کو بھی دیکھنا ہے۔ ہم تو ان سارے معاملات میں مصروف ہوں گے۔‘
پنجاب کے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ایک سیاسی کارکن کے طورپر ہم پنجاب حکومت سے کسی قسم کی مدد نہیں لیں گے۔ نہ ہم پولیس سے کہیں گے کہ وہ جا کر کنٹینر اٹھائے نہ ہم پولیس کو کہیں گے کہ وہ آگے جا کر اسلام آباد پولیس سے لڑائی کرے۔ ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے، ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔‘
جیل میں شہباز گل پر تشدد
ہاشم ڈوگر نے انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ اپنی اس بات پر قائم ہیں کہ جیل کے اندر شہباز گل پر تشدد نہیں ہوا۔
’میرا آج بھی موقف وہی ہے جو میرے چیئرمین کا ہے کہ جس شام ان کو بنی گالہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا, اس کے بعد دو راتیں وہ اسلام آباد پولیس کی حراست میں رہے۔ اسی دوران ان پر تشدد کیا گیا۔ اور خاصا خوفناک تشدد کیا گیا۔‘
’اس کے بعد وہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں آ گئے۔ اب جیل میرے انڈر آتی ہے۔ وہاں پر ان کو نارمل انداز میں رکھا گیا۔ جیسے عام قیدیوں کو رکھتے ہیں۔ خدانخواستہ تشدد کی تو ہم ویسے ہی اجازت نہیں دیتے کسی بھی قیدی کے ساتھ ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خاص طور پر شہباز گل صاحب کے ساتھ کیسے ممکن تھا کہ جیل میں تشدد ہو جاتا۔ اس کے بعد چیزیں کافی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئیں، ابھی تشدد والا معاملہ عدالت میں ہے دیکھتے ہیں بات کس طرف جاتی ہے۔‘

بیورو کریسی سے شکوہ
پنجاب کے وزیر داخلہ نے ایک مرتبہ پھر سول بیورو کریسی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کام نہیں کر رہی جیسے اسے کرنا چاہیے۔
’بیوروکریسی جو ہوتی ہے نا جی اس کا اپنا ہی رویہ ہوتا ہے۔ یہ تھوڑا لانگ ٹرم دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ میرا ایک دیکھنے کا طریقہ ہے۔ یہ دیکھتے ہیں کہ کون حکومت میں رہے گا اور کون نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کو عار نہیں کہ ہمیں (بیوروکریسی سے) مسائل آتے ہیں۔ یہ تو یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اب یہ حکومت آئی ہے تو کتنی دیر چلے گی، آگے کسی کی حکومت آ رہی ہے۔‘
ہاشم ڈوگر نے بتایا کہ وہ فوج میں رہے ہیں وہاں کام ایک خاص طرح کے ڈسپلن میں ہوتا ہے اور کام میں کسی قسم کی رکاوٹ کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا۔
’یہاں جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے شدید مایوسی ہوتی ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں کوئی چیز مکمل ہونے کے لیے بہت وقت لیتی ہے۔‘
چیف سیکریٹری پنجاب کی تقرری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب وفاق میں کوئی اور حکومت اور صوبے میں کسی اور جماعت کی حکومت ہو تو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے ابھی چیف سیکریٹری کا تقرر تاخیر کا شکا ہے۔
’یہ ایک عجیب طرح کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ کوئی پرسکون معاملہ نہیں ہے۔ مگر ابھی جن کے پاس چارج ہے چونکہ ان کا زیادہ کام وزیراعلٰی کے ساتھ ہوتا ہے تو ابھی تک یہ ٹھیک چل رہا ہے‘
خیال رہے کہ پنجاب میں سابق چیف سیکریٹری کامران افضل نے کام کرنے سے معذرت کر لی تھی اور وہ چھٹیوں پر چلے گئے تھے ان کی جگہ عبداللہ سنبل کو پنجاب کا عارضی چیف سیکریٹری بنایا گیا ہے۔
