تازہ ترین تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود نہ صرف تجربات جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ جوہری صلاحیت بھی بڑھا رہے ہیں۔
زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ کِم جونگ اُن کا مقصد امریکہ کی جانب سے ایک جائز جوہری ریاست کے طور پر تسلیم کیا جانا ہے حالانکہ بین الاقوامی برادری کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کے آثار موجود نہیں ہیں۔
تازہ ترین میزائل شمالی کوریا کے دارالحکومت سے 22 منٹس کے سفر کی دوری پر واقع علاقے سے چلائے گئے جو شمالی کوریا اور جاپان کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا کہنا ہے کہ پہلا میزائل 350 کلومیٹر تک اڑا اور اس کی رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی جبکہ دوسرے نے 800 کلومیٹر تک پرواز کی۔
اسی طرح تجربے کے بعد جاپان کے وزیر دفاع یاسوکازو ہمادا کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات بھی اس سے ملتی جلتی ہیں۔
انہوں نے یہ تصدیق بھی کی کہ میزائل جاپان کے مخصوص اکنامک زون تک نہ پہنچ سکے۔
جنوبی کوریا کے حکام نے تجربے کے بعد بتایا کہ اس کی جانب سے نگرانی کا کام مزید سخت کر دیا گیا ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کی انڈو پیسیفک نے کہا ہے کہ حالیہ تجربات امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام سے عدم استحکام اجاگر ہوا ہے۔
جاپان کے وزیر فومیو نے تجربے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’شمالی کوریا کے تجربات ناقابل برداشت ہے۔‘
یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جاپانی وزیراعظم آج جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی کریں گے۔
وزیراعظم آفس کے مطابق ’نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹر کم سانگ نے ہنگامی اجلاس بلایا جس میں شمالی کوریا کے جواب میں اقدامات کرنے کے بارے میں مشاورت کی گئی۔‘
خیال رہے شمالی کوریا نے منگل کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا میزائل فائر کیا تھا جو جاپان کے اوپر سے گزرا تھا، جس سے خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میزائل نظر میں آتے ہی حکام نے شہریوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کی ہدایت کی تھی اور ٹرین سروس بھی بند کر دی گئی تھی اور یہ صورت حال میزائل کے سمندر میں گرنے تک برقرار ر ہی تھی۔
اس کے بعد جاپانی حکام نے بتایا تھا کہ میزائل نے چار ہزار چھ سو کلومیٹر (دو ہزار آٹھ سو 50 میل) سے زائد کا فاصلہ طے کیا اور یہ ممکنہ طور پر شمالی کوریا کا اب تک کا سب سے طویل فاصلے کا ٹیسٹ تھا۔