Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران: سکول میں گھس کر گرفتاریاں ’مرنے والے 185 افراد میں 19 بچے بھی شامل‘

صدر ابراہیم رئیسی کو یونیورسٹی کے دورے کے موقع پر ’چلے جاؤ‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا (فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں سکیورٹی فورسز نے سکول میں گھس کر طلبہ کو گرفتار کیا ہے، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اب تک پرتشدد احتجاج میں ہلاک ہونے 185 افراد میں 19 بچے بھی شامل ہیں۔
عرب نیوز نے برطانوی اخبار گارڈین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں سکول پہنچے۔
گارڈین کے مطابق ایران کے وزیرتعلیم محمد مہدی کاظم کا  کہنا ہے کہ ’مظاہروں میں شامل طلبہ کو سکولوں سے نہیں نکالا گیا تاہم ان کے والدین سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔‘
شعبہ تعلیم کے حکام نے کردستان میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز نے انسانی حقوق کے گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اتوار کو بھی مختلف شہروں میں شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔
حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ 17 ستمبر کو اس وقت شروع ہوا تھا جب حجاب کے معاملے پر گرفتار کی جانے والی خاتون پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
احتجاج کی یہ لہر حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہی ہے جس میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ہٹانے کے مطالبات بھی ہو رہے ہیں۔

ایران میں 17 ستمبر سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ناروے کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کا کہنا ہے کہ ’اب تک ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے احتجاج میں 185 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 19 بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً آدھی ہلاکتیں صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ہوئی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کی صبح ایران کے درجنوں شہروں میں بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں جن میں کالجز اور یونیورسٹیز کی طالبات بھی شامل ہیں۔ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے اور آنسو گیس استعمال کی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ کچھ مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے سیدھی گولیاں بھی چلائیں تاہم ایرانی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔
سنیچر کو تہران کی الزہرا یونیورسٹی میں اس وقت صورت حال خراب ہو گئی تھی جب صدر ابراہیم نفیسی وہاں ایک تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔ ان کے خطاب کے دوران ہی طالبات نے احتجاج شروع کر دیا اور ’چلے جاؤ‘ کے نعرے لگائے تھے۔
سماجی تنظیم تصویر 1500 نے ٹوئٹر پر ایک ایسی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی اہلکار تہران کے ہائی سکول پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

ایران کے نائب وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ مظاہروں میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی (فوٹو: روئٹرز)

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں ایک شخص زور سے چلا کر پولیس اہلکاروں کو کہتا ہے کہ ’میری بیوی کو مت مارو، وہ حاملہ ہے۔ اس ویڈیو کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ رفسنجان شہر کی ہے۔‘
مملکت نامی اکاؤنٹ، جو ڈیڑھ لاکھ سے زائد فالوور رکھتا ہے سے شیئر ہونے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ بندر عباس شہر میں سکیورٹی اہلکار درجنوں سکول کی طالبات کا پیچھا کر رہے ہیں۔
اسی طرح کچھ پوسٹس میں بتایا گیا ہے کہ ہڑتال کی کال کے بعد کئی شہروں میں دکانیں اور کاروبار بند رہے۔
نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم کا کہنا ہے کہ نائب وزیر داخلہ نے خبردار کیا ہے کہ مظاہروں میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔
خیال رہے مہسا امینی نامی 22 سالہ خاتون کو ’درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر‘ 13 ستمبر کو گرفتار کیا تھا جو تین روز بعد پولیس حراست میں ہی ہلاک ہو گئی تھیں۔
اس کے بعد محکمہ صحت کہا تھا کہ ان کی موت تشدد سے نہیں پہلے لاحق طبی مسائل سے ہوئی۔
مہسا امینی کے والد نے ہلاکت کا الزام پولیس پر لگایا تھا جس کے بعد سے ملک میں احتجاج کی شدید لہر پھوٹ پڑی تھی۔

شیئر: