Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بلیک میں ٹکٹ‘، دی لیجنڈ آف مولا جٹ نے تاریخ دُہرا دی

گزشتہ 15 برسوں میں شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لیے‘ اور بلال لاشاری کی ’وار‘ جب سینیما گھروں کی زینت بنی تو یہ جملہ سننے کو ملا کہ ’پاکستان کی فلم انڈسٹری کا جنم ہوا‘ لیکن اس مرتبہ جب فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کو دیکھیں گے تو آپ فلم انڈسٹری کے پہلے جنم کو بھول جائیں گے۔
اس بات کا ادراک پہلے تو اس وقت آپ کو ہوگا جب آپ اس فلم کا ٹکٹ خریدنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کی مرضی کے وقت اور سیٹ کے مطابق آپ کو ٹکٹ مل جائے۔ 
جمعے کو ریلیز ہونے والی مولا جٹ کو دیکھنے کے لیے لوگوں نے رات اڑھائی بجے تک کے شو کا بھی انتظار کیا۔
فلم پر تبصرہ کرنے سے پہلے ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ جب میں فلم دیکھنے کے بعد باہر نکلا اور دیگر فلم بینوں کو روک کر مولا جٹ سے متعلق ان کی رائے معلوم کر رہا تھا تو ایک نوجوان کہیں سے تیزی سے میری طرف آیا اور میرے کان میں کہتا ہے ’آپ بلیک میں ٹکٹ بیچ رہے ہیں؟ مجھے دو ٹکٹ چاہییں۔‘
اس وقت مجھے یاد آیا کہ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے سینیما گھروں کے باہر ٹکٹ بلیک میں فروخت ہوتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں خود بھی 35 سو روپے کا بلیک میں ملنے والا ٹکٹ چھوڑ کر ایک ’جگاڑ ٹکٹ‘ لے کر پہنچا تھا۔
نیٹ فلکس کے دور میں جب بالی وڈ کی فلم انڈسٹری سٹریمنگ سروسز کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے ایسے میں اگر پاکستان کے معدوم ہوتے سینیما گھروں سے نکلنے والے شائقین کے چہرے آپ کو مسرت اور غیریقینی کے امتزاج سے مزین نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ کسی نے کوئی ’لیجنڈری‘ کام کر دکھایا ہے۔
بلال لاشاری کی ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ وقت، زبان اور بیان کی قید سے آزاد فلم ہے۔ اس میں 19ویں صدی یا اس سے قبل کے دور کے پنجاب کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جب نہ بجلی تھی اور نہ نظام حکومت حتیٰ کہ پولیس بھی نہیں۔ کہیں آپ کو گیم آف تھرونز کی جھلک ملتی ہے تو کہیں گلیڈی ایٹر کے کلوسیوم کی۔ اکیسویں صدی کی مولاجٹ ایسے ہی بن سکتی تھی۔
 فلم آپ کو پہلے سین سے آخری تک اپنی طاقتور سینماٹو گرافی، ویژیول ایفیکٹس، اداکاری اور ڈائیلاگ سے جوڑے رکھتی ہے۔ مرکزی خیال اور اداکار 70 کی دہائی کی مولا جٹ سے مستعار لیے گئے ہیں۔

فلم میں اداکار فواد خان مولا جٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ناصر ادیب کے لکھے ہوئے کئی ڈائیلاگ بھی جوں کے توں نقل کیے گئے ہیں۔ چاہے وہ ’نواں آٰیا ایں سوہنیا‘ ہو یا ’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا۔‘ 
بلال لاشاری کی فلم کی کہانی بھی مولاجٹ اور نوری نت نامی دو پنجاب کے ’گبھرو‘ جوانوں کی خاندانی دشمنی کے گرد گھومتی ہے۔ جس میں نوری نت بدمعاش جب کہ مولاجٹ ’انصاف‘ کا علم اٹھائے ہوئے اور ماضی میں اپنے خاندان کے قتل عام کا بدلہ لینے کی جستجو میں ہے۔ حمزہ علی عباسی نے نوری نت کے کردار کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ ڈائیلاگ ڈیلیوری ہو یا ایکٹنگ اگر آپ نے پرانی مولاجٹ دیکھی ہوئی ہے تو آپ ایک لمحے کے لیے کنفیوژڈ ہو جائیں گے کہ یہ حمزہ علی عباسی بول رہے ہیں یا مصطفٰی قریشی؟ فواد خان نے بھی مولاجٹ کا کردار خوب نبھایا ہے۔ 
مائرہ خان بطور مکھو (مولاجٹ کی محبوبہ) اور حمائمہ ملک نے نوری نت کی بہن دارو کے کردار کو زندہ کیا ہے۔ گوہر نفیس نوری نت کے بھائی ماکھا کے روپ میں آئے ہیں۔ فلم میں تشدد کو ہالی وڈ کے ’سٹینڈرڈز‘ پر فلمایا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شائقین خوشگوار حیرت میں دکھائی دیے جیسے انہیں اس بات کی توقع نہ ہو۔ فلم میں کوئی گانا نہیں ہے جو بہرحال اپنی جگہ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ 

ماہرہ خان نے مولا جٹ کی محبوبہ مکھو کا کردار ادا کیا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

پچاس کروڑ روپے سے زائد بجٹ کی یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کے سیٹ کے لیے ایک پورا گاؤں بسایا گیا۔ فلم کے کچھ پہلو جیسا کہ میلوں ٹھیلوں پر لگنے والے ’موت کے کنویں‘ کو یونانی پہلوانوں کے اکھاڑوں سے تشبیہہ دینا خالصتاً ایک کمرشل زاویہ ہے اور جس طریقے سے اسے فلمایا گیا ہے یقیناً ہدایت کار نے وہ حاصل کیا ہے جس کے لیے انہوں نے یہ ترکیب استعمال کی۔ 
پرانی مولا جٹ میں ہیرو اور ولن کو کہیں ایک دوسرے کو مذاق کرتے نہیں دکھایا گیا لیکن دی لیجنڈ آف مولاجٹ میں 12 مصالحے پورے کرنے کے لیے کئی جگہوں پر غیر متوقع جگت بازی بھی نظر آتی ہے۔ جس سے سینیما ہال قہقوں سے گونج اٹھتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ فلم بینوں کو اربن پنجابی یا کئی اداکاروں کے پنجابی لہجے پر اعتراض ہو لیکن اس فلم کے عالیشان ہونے نے ایسے معاملات کو چھپا لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ باکس آفس پر مولا جٹ کی کارکردگی کیا رہتی ہے۔ اور یہ کون کون سے ریکارڈ اپنے نام کرتی ہے۔

شیئر: