پاکستان گئی تو بہن نے چھری لاکر دی، آج اس سے سبزی کاٹتے وقت خود بخود اسکی یاد آتی ہے اور دعا نکلتی ہے
- - - - - - - -
مسز ربانی۔جدہ
- - - - - - - -
رمضان کریم کی آمد آمد ہے ۔ ہر مومن کو انتظار ہے بھلائیوں میں سبقت لے جانے کا۔ انہیں انتظار ہے کہ وہ مہینہ آنے والا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میرا مہینہ ہے اور میں اس کا اجر دوں گا حالانکہ کائنات کا ذرہ ذرہ رب کریم کی تخلیق ہے ۔ جزا اور سزا وہی دیتا ہے مگر بندوں پر خاص مہربانی کا انداز ہے کہ جو چاہے جتنی خیر کمالے۔ اصل میں ہم نے خیر کو کچھ لوگوں کے لئے مخصوص کررکھا ہے۔ خیر کا وقت اور خیر کا پیمانہ بنایا ہوا ہے جبکہ خیر لکھنے میں جتنا چھوٹا ہے، معنی کے لحاظ سے بے انتہاء وسیع اجر والا عمل ہے۔ نیکی چھوٹی ہو یا بڑی، اسے کرنے کا حکم ہے۔ اسکی حیثیت ہماری نظر میں کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن جن کے لئے کی جارہی ہے ،ان کیلئے کتنی اہم ہے ،یہ وہی جان سکتے ہیں اور پھر اس پر اجر کیا ہے وہ بھی اللہ کریم کوہی اختیار ہے کہ وہ 10 گنا ، 20 گنایا بے شمار، جتنا چاہے، عطا فرمائے۔ حال ہی میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسی موضوع پر بات کی کہ ان کے شوہر نماز کے لئے مسجد جانے سے مجبور ہیں کیونکہ پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے اب بچے ہر وقت موجود نہیں ہوتے کہ انہیں مسجد لے جائیں لیکن میرے دل میں اکثر خیال آتا ہے کہ پابندی سے مسجد جانے والے شخص کے دوست ،ا حباب آس پڑوس کے لوگ کیسے اس سے بے خبر ہوگئے۔
ایک دن ، دو دن کی غیر موجودگی کو محسوس کیوں نہیں کرتے، خبر گیری کرنے میں سبقت کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ آؤ گاڑی میں ساتھ چلو ۔ روز نہ سہی جمعہ کے دن یا کسی اور وقت ۔ شاید اس طرح اس کے عمل سے بیمار شخص کا جذبۂ عبادت بڑھ جائے ، اسے صحت ملے، خوشی ملے ، دوستوں کی توجہ اسے زندگی کی طرف مائل کردے۔ غرضیکہ یہ کوئی اتنی چھوٹی نیکی نہیں جسے نظرانداز کردیا جائے لیکن لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اب اگر کسی بھی شخص کو اس تحریر کے ذریعے خیال آجائے تو یہ میرے لئے بھی اجر کا باعث ہوگا۔ ہم امت وسط ہیں، نیکی کے پہاڑ کی فکر نہ کریں، نیکی کا لمحہ ضائع نہ ہونے دیں۔ اب رمضان کریم قریب ہیں، کھلاتے پلاتے تو سب ہی ہیں ، بڑے بڑے دسترخوان گلی محلے، مسجد اور سڑکوں پر لگے ہوتے ہیں جس میں روزہ دار اور بے روزہ دار سب ہی مستفید ہوتے ہیں لیکن آپ کے پڑوس میں کوئی ایسا بھی ہوگا جو مسجد جانا چاہتا ہوگا مگر اسے مسجد تک پہنچانے والا کوئی نہ ہو تو آپ اسکی خبر گیری کریں ۔ اگر یہ ذمہ داری آپ پورے ماہ اٹھالیں تو یقین جانیں ، رب کریم کا کرم آپ پر آسمان سے کھول دیا جائے گا، ان شاء اللہ۔
کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو مسجد جانے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔آپ نماز کے بعد ان کے پاس کچھ دیر بیٹھیں اور روز نہ سہی، وقفے وقفے سے ملیں ، مسجد میں دوستوں ، تراویح پڑھنے والوں کا احوال بتائیں۔ ان کو تسلی دیں ، ڈھارس بندھائیں کہ ان شاء اللہ، اگلے سال آپ ہمارے ساتھ مسجد میں ہوں گے وغیرہ۔ میں پاکستان گئی تو میری بہن نے ایک چھری لاکر دی کہ باجی بہت تیز ہے، سبزی کاٹنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ پھر آج 2 ماہ ہوگئے، روز ایک وقت کچن میں اس سے سبزی کاٹتے وقت خود بخود اسکی یاد آتی ہے اور دعا نکلتی ہے۔ اس بات کا میں نے اس سے بھی ذکر کیا کہ نیکی آپ کیلئے چھوٹی ہو سکتی ہے لیکن سامنے والے کیلئے آپ کا یہ عمل کیا ہے اور کیسا ہے ،یہ وہی جانتا ہے اور جب آپ کی عدم موجودگی میں کوئی آپ کو دعا دے رہا ہو تو اس دعا کی اہمیت کا اندازہ آپ کو نہیں ہوسکتا ۔ وہ رب کریم ہی جانتا ہے ۔
فرشتے لکھتے جا رہے ہیں اور دفتر پر دفتر جمع ہورہے ہیں۔ یہ مال ،اولاد سب ختم ہونے والی چیز یں ہیں۔ باقی رہنے والا تو عمل صالح ہے۔ جس نے اس کو پالیا ،وہ فلاح پاگیا اور جو فلاح پاگیا وہی جنت کا حقدار ہے۔ رمضان کریم وہ مہینہ ہے جس کی لذت پورے سال قائم رہتی ہے ۔اسکی قبولیت اور اسکی سعادت کا احساس ان ہی کو ہوسکتا ہے جنہوں نے اس کا انتظار کیا ہو، اس تک پہنچنے کی دعا مانگی ہو اور اس کو پالینے کے بعد اس کو اچھی طرح تھامے رکھا ہو، اس کے دن اسکی راتوں کی حفاظت کی ہو اور جم کر پورے ماہ تربیت حاصل کی ہو اور اسکی رخصتی سے اداس اور خالی پن محسوس کیا ہو اور رمضان کریم کی یاد میں پورے سال نیکی میں ڈٹا رہا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اضح پیغام عطا فرمایا ہے کہ اس کی عبادت کرو اور اس پر ڈٹے رہو۔ عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں ، انسان دوسرے انسان کی تکلیف کو بغیر بتائے محسوس کرلے اور اسکی کوشش ہو کہ کسی طرح بھی اس کے کام آسکے، یہ بھی نیکی ہے۔ ایک چھوٹا سا عام الفاظ میں عام سا پیغام شاید کسی کے دل میں گھر کر جائے تو ہمارے لئے بھی اللہ کریم جنت میں گھر کا انتظام فرمادے، آمین۔