گزشتہ ہفتے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ (فوٹو: سکرین گریب)
ملکی سیاست فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ بدقسمتی سے اس موڑ پر صلح سے زیادہ لڑائی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ صورتحال کی نزاکت کا اندازہ اس غیر متوقع اور غیر معمولی پریس کانفرنس سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے متعلقہ دو سینیئر عہدیداروں کے طرف سے کی گئی۔
دوسری طرف عمران خان کی طرف سے بھی اپنے بیانیے اور درجہ حرارت کو بڑھایا ہی گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال اسی طرح چلے گی یا اس میں بہتری کی کوئی گنجائش ہے؟
عمران خان کی اصل طاقت اب ان کی عوامی مقبولیت ہے۔ ان کے لانگ مارچ میں لوگ کم ہوں یا زیادہ، ان کے بیانات میں تسلسل ہو یا تضاد، اور ان کے خلاف مقدمات ہوں یا نااہلی، عوام میں ان کی پوزیشن جوں کی توں ہے۔ اس مقبولیت کو انہوں نے بڑی مہارت اور کوشش سے سیاسی تحریک میں تبدیل کیا ہے۔
انہوں نے ضمنی الیکشن کو ایک تجربہ گاہ میں تبدیل کر کے اپوزیشن کا رہا سہا سیاسی اعتماد بھی متزلزل کر دیا ہے۔ ایسا نہیں کہ اپوزیشن کا ووٹ بینک موجود نہیں ہے مگر اس وقت جس طرح پی ٹی آئی کا ووٹر چارجڈ اور متحرک ہے اس کا مقابلہ دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتا۔
ایک طرف عمران خان عوام کو موبلائز کرنے میں انتھک ہیں تو اتنی ہی انتھک ان کو مائنس کرنے کی کوششیں ہیں۔ ان کوششوں کی بے چارگی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج کے دن کسی کو بشمول حکومتی جماعتوں کے یاد بھی نہیں کہ الیکشن کمیشن عمران خان کو نااہل کر چکا ہے۔ عوامی یادداشت سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ محو ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
بہت پرانا سیاسی سبق ایک بار پھر درست ثابت ہو رہا ہے کہ سیاست دانوں کو صرف سیاسی عمل سے ہی مائنس کیا جا سکتا ہے۔ ان کو دبانے کا نتیجہ ان کی مزید مقبولیت میں ہی نکلتا ہے۔
جس طرح عمران خان یا کسی بھی مقبول سیاستدان کو معاملات سے مائنس نہیں کیا جا سکتا اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی نے اس حقیقت کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ نواز شریف چاہے خود یا اپنے چھوٹے بھائی کے سمجھانے پر، جیسے بھی اب اس حقیقت سے ایک بار پھر سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ اور یہی ادراک عمران خان کو ہے۔ اسی لیے باوجود اپنے بیانیے کے ان کی طرف سے بالواسطہ رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات البتہ واضح ہے کہ ان کے مطالبات اور لہجے میں لچک نظر نہیں آئی۔ ان کے خیال میں لچک سے ان کی پوزیشن کمزور ہو گی اور اس کے لیے وہ فی الحال تیار نہیں۔
ہمارے ہاں ڈیل کو عموماً منفی طور پر دیکھا جاتا ہے اور دیکھا جانا بھی چاہیے۔ مگر حالات جس تلخی اور انتشار کی طرف جا رہے ہیں اس کا کوئی انجام نظر نہیں آتا۔
ایک طرف گرفتاری وفاقی حکومت کے ماتحت ایف آئی اے کی طرف سے ہوتی ہے تو دوسری طرف سے پنجاب حکومت میں اینٹی کرپشن کا محکمہ بھی موجود ہے۔ ایک طرف سے وفاق شیخ رشید پر چھاپہ پڑواتا ہے تو دوسری طرف سے رانا ثنا کے خلاف کاروائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ریس بغیر رکے اسی طرح جاری رکھی جا سکتی ہے مگر اس کو بریک لگانی ہو گی۔
اس وقت ڈیل نہ سہی کسی سیٹلمنٹ کی ضرورت بہرحال ہے۔ یہ سیٹلمنٹ خفیہ نہیں اعلانیہ ہونی چاہیے اور اس کا آغاز اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہونا چاہیے کہ سسٹم میں سب پلیئرز کا رول بھی ہے اور ضرورت بھی۔