پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی ایف آئی آر میں تاخیر پر آئی جی پنجاب کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
گزشتہ ہفتہ ملکی سیاست میں ایک نیا تلاطم لے کر آیا۔ پچھلا کالم سیٹلمنٹ کی ضرورت کے بارے میں تھا اور یہ بھی کہ حالات صلح سے زیادہ لڑائی کی طرف جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعات نے اس خدشے کو تقویت دی ہے اور آگے کوئی بہتری کی بھی صورت نظر نہیں آتی۔
دیکھنے والے اور سوچنے والے اب کہنے پر مجبور ہیں کہ کیا نظام واقعی بیٹھ چکا ہے؟
غور کیجیے کہ عمران خان صاحب جو کہ سابق وزیر اعظم اور ملک کی نمایاں سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ایک براہ راست حملے کی زد میں آئے۔
درجن بھر لوگ زخمی ہوئے، ایک شخص جان سے گیا اور ایک حملہ آور موقع سے گرفتار ہوا۔ یہ سب کسی بھی نظام اور کسی بھی قوم کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہونا چاہیے تھا۔
سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر اس سطح کی لیڈر شپ سے قوم کی جذباتی اور سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ اس طرح کا واقعہ چشم کشا ہونا چاہیے تھا جس کے بعد سنجیدہ لوگ سر جوڑتے اور ملک کو اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کرتے۔
جو ہوا وہ سنجیدگی اور دور اندیشی کے بالکل برعکس ہے۔ سیاسی، قانونی اور انتظامی نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ آج تیسرا دن ہے اور اس واقعے کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکی۔ حکومت کی طرف سے اس واقعے کے محرکات اور تفصیل کو لے کر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ عمران خان صاحب براہ راست حکومتی سیاست دانوں پر الزام لگا رہے ہیں۔ قانونی صورتحال یہ ہے کہ گرفتار ملزم بغیر ایف آئی آر تحویل میں ہے اور اس کی ویڈیوز لیک ہو رہی ہے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اس کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی صوبائی پولیس اور آئی جی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ آئی جی نے دوسری طرف کام چھوڑنے اور تبادلے کی درخواست دے دی ہے جبکہ لاہور پولیس کے سربراہ کو وفاقی حکومت نے معطل کر دیا ہے جس کو صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
اس دوران اتنے سنگین واقعے کی تفتیش شروع ہوئی ہے اور نہ دیگر قانونی تقاضے پورے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قانونی نظام کے اس طرح مفلوج ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ماضی کے واقعات کی طرح یہ واقع بھی ایک معمہ ہی رہ جائے گا؟ ارشد شریف کا واقعہ بھی ابھی تازہ ہے اور اس کی تفتیش میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ پاکستان کے اپنے سرکاری ہسپتال میں ہونے والے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تک جاری نہیں کی گئی۔ اسی دوران وفاقی تنصیبات کے سامنے احتجاج بھی جاری ہے۔
فیض آباد ایک سرحد کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں پر وفاقی فورسز پنجاب سے آنے والے مظاہرین کے سامنے صف آرا ہیں۔ کیا اس صورتحال میں اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ہمارا نظام بالکل بیٹھ چکا ہے؟
قانونی نظام سے سیاسی نظام کی طرف جائیں تو نظر آتا ہے سیاسی اختلافات کی آخری منزل اعلٰی عدالتیں ہیں۔ عمران خان کے پچھلے دھرنے کا معاملہ اب بھی سپریم کورٹ میں ہے۔ وزیر اعظم نے عمران خان پر حملے کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کمیشن بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ بطور تحقیقاتی ادارہ بن کر ان حقائق کا تعین کرے جو کہ انتظامی اور تفتیشی محکموں کی ذمہ داری ہے۔ سوال یہ بھی ہے اعلٰی عدالتیں سیاسی اختلافات کو حل کرنے کا وزن کب تک اٹھائیں گی؟ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو کیا وہ وقت دور نہیں جب کسی ایک یا زیادہ اطراف سے عدالتوں پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔
نظام کا آخری امتحان الیکشن کی صورت میں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ اس حکومت کے دس مہینے باقی ہیں اور اگر عمران خان صاحب کی بات چلی تو مدت اس سے بھی کم ہوگی۔ آج کی تاریخ میں انتخابات کے انعقاد اور طریقہ کار پر اتفاق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر واضح عدم اعتماد کر دیا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ہر طرح کی پابندیوں کی بھی زد میں ہیں۔ ایک ہی دن میں پیمرا ان کو ٹی وی سے بین کرتا ہے اور حکومت پھر یہ بین ختم کر دیتی ہے۔ اگر سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو انتخابات آج کے حالات کا ری پلے ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس بیٹھے ہوئے نظام کو بحال کرنے کی کوئی صورت ہے اور ڈر یہ بھی کہ کہیں ایک تعیناتی سارے نظام کو نہ لے ڈوبے۔