حکومت کی ایف آئی اے کو عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت
حکومت کی ایف آئی اے کو عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت
اتوار 6 نومبر 2022 15:59
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس قانون کے تحت سات سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ریاست اور اداروں کے خلاف عوام کو اکسانے اور بے بنیاد الزامات لگانے کے الزام میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں کے خلاف کارروائی کے لیے ایف آئی اے کو باضابطہ طور پر ہدایات جاری کر دی ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہفتے کو لاہور میں ہونے والے اجلاس میں تشکیل پانے والی آئینی و قانونی ماہرین کی کمیٹی کی سفارش پر وزارت داخلہ کی جانب سے ایف آئی اے کو باضابطہ ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
اس حوالے سے ایف آئی اے کو مسلح افواج کی جانب سے حکومت کو کی گئی درخواست سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال سے ایک خطاب میں خود پر حملے کا ذمہ دار وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک فوجی افسر کو ٹھہرایا تھا۔ جس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے حکومت کو ان سنگین الزامات پر متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔
حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اس حوالے ایف آئے کے اختیارات میں اضافے کے لیے اقدامات بھی تیز کر دیے گئے ہیں۔ کابینہ سے منظوری کے بعد ایف آئی ایکٹ کو جلد از جلد پارلیمنٹ میں لاکر قانون کا حصہ بنانے یا آرڈینینس جاری کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے۔
جس کے بعد سوشل میڈیا سمیت اجتماعات میں حکومت، ریاستی اداروں اور شخصیات کے خلاف الزامات و پراپیگنڈے کے ذریعے عوام کو اکسانے کے جرم میں ایف آئی اے کو تعزیرات پاکستان کی سکیشن 505 کے تحت کارروائی کا اختیار مل جائے گا۔
حکومت نے اسی اختیار کے تحت عمران خان، شاہ محمود قریشی اور دیگر افراد کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے انکوائری کروا کر قانونی کاروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایف آئی اے کو یہ اختیار دینے کے لیے وفاقی حکومت نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے رجوع کرنے پر ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔ اب ایف آئی اے کو کسی بھی ایسے شخص کے خلاف پی پی سی سیکشن 505 (عوامی فساد کا باعث بننے والا بیان) کے تحت کارروائی کا اختیار حاصل ہوگا جو سوشل میڈیا یا کسی بھی فورم پر ریاستی اداروں کے خلاف افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے میں ملوث ہوگا۔
کابینہ سے منظوری کرائی گئی سمری کے مطابق ایف آئی اے کو اس ترمیم سے قبل تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 کے تحت کارروائی کا اختیار حاصل نہیں تھا تاہم اسے ایکٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
پہلے یہ اختیار صرف پولیس کے پاس تھا لیکن پولیس سوشل میڈیا پر ہونے والے کسی مبینہ جرم کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی تھی۔ اسی وجہ سے یہ ترمیم لائی گئی ہے۔
ترمیم کے بعد سوشل میڈیا پر کسی قسم کی جعلی خبر اور افواہ پر کارروائی کا اختیار ایف آئی اے کا بھی ہوگا۔
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس قانون کے تحت سات سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق اختیارات ملنے کے بعد ان معاملات پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ساتھ ساتھ کاؤنٹر ٹیرازم ونگ سمیت دیگر ونگز بھی انکوائری اور کارروائی کرسکتے ہیں۔
وفاقی حکومت اگلے ہفتے سرکاری املاک اور عمارات پر جلاؤ گھیراؤ، پرتشدد سرگرمیوں سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف بھی متعلقہ فورمز سے رجوع کرے گی۔