عالمی موبائل تنیظم جی ایس ایم نے ٹیلی کام سروسز پر ٹیکس میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں سروسز پروائیڈرز پر پاکستان میں ٹیکس دنیا بھر سے زیادہ ہے۔
تنظیم ڈیجیٹل پاکستان نے منصوبے سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کا یہ پروگرام اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب پوری حکومت یکساں ذہن کے ساتھ اس پر عمل درآمد پر توجہ نہیں دیتی۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں موبائل کی صنعت اور ٹیلی کام سروسز کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں رقم کی ترسیل کے لیے موبائل بینکنگ کتنی محفوظ ہے؟Node ID: 537546
تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں موبائل اور ٹیلی کام کے شعبے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ 2022 میں 80 فیصد نوجوان آبادی موبائل اور تھری جی فور جی براڈ بیںڈ استعمال کر رہے ہیں، جبکہ 2010 میں شرح صرف 15 فیصد تھی۔ رواں سال کے اختتام تک 63 فیصد نوجوان آبادی سمارٹ فونز سمز استعمال کر رہی ہو گی، جبکہ 22 فیصد ایسے ہیں جو مسلسل انٹرنیٹ ڈیٹا استعمال کرتے ہیں۔
جی ایس ایم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موبائل کے استعمال میں اگرچہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نوجوان ہر شعبے میں اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں، لیکن مقامی معاشی پالیسیاں ٹیلی کام صنعت کو متاثر کر رہی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت فی صارف ریوینو کی اوسط شرح ایک ڈالر ہے، جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح آٹھ ڈالر ماہانہ ہے۔ پاکستان میں مقامی سطح پر مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ رہی سہی کسر سیلاب نے نکال دی ہے جس کے باعث موبائل صارفین ٹیلی کام سروسز کا استعمال کم کر دیتے ہیں اور اس کا نقصان صنعت کو ہوتا ہے، کیونکہ آپریٹنگ اخراجات تو کرنسی ریٹس اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھ ہی رہے ہیں۔
تنظیم نے کہا کہ خطے کے ممالک کے ساتھ ٹیلی کام سیکٹر میں مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں 15 فیصد ایڈوانس ٹیکس کو ختم کیا جائے۔ ٹیلی کام سروسز میں 19.5 فیصد سیل ٹیکس ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن میں رکاوٹ ہے۔ درآمدات پر کیش مارجن بڑھانے سے ٹیلی کام آلات کی درآمدی لاگت بڑھ گئی۔ درآمدی بیٹریوں پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی جائے۔
