پاکستان میں روایتی بینکنگ نظام کے علاوہ رقم کی ترسیل اور خریداری کے لیے ٹیلی کام کمپنیز کی جانب سے بھی موبائل بینکنگ کا نظام متعارف کیا گیا ہے۔ ملک میں ٹیلی کام کی سہولت فراہم کرنے والی چار کمپنیز موبائل بینکنگ کی سہولت مہیا کر رہی ہیں جسے ’برانچ لیس‘ بینکنگ بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیز ایزی پیسہ، جیز کیش، یو پیسہ اور پے میکس کے علاوہ روایتی بینکس بھی برانچ لیس بینکنگ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق برانچ لیس بینکنگ کے اکاونٹس پانچ کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
متنازع مواد: ایف آئی اے کا کمپنیوں سے چار ہزار بار رابطہNode ID: 460866
-
پاکستان کا سائبر سپیس سکیورٹی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہNode ID: 500831
-
پاکستان میں سال 2020 کے دوران سائبر کرائم میں پانچ گنا اضافہNode ID: 531586
برانچ لیس بینکنگ رقم کی دور دراز علاقوں میں آسان ترسیل اور دیگر آن لائن خریداری سہولت فراہم کرتا ہے لیکن اس کی غیر محفوظ ہونے سے متعلق بھی کئی شکایات سامنے آئی ہیں۔
محمد عمران یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور گزشتہ دو سالوں سے ایک ٹیلی کام کمپنی کے موبائل اکاونٹ ہولڈر ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’روایتی بینک میں اکاونٹ کھلوانے کے جنجھٹ سے بچنے کے لیے میں نے موبائل بینکنگ کا اکاونٹ ہی کھلوایا کیونکہ ہاسٹل میں رہنے کی وجہ سے مجھے اکثر گھر سے پیسے منگوانے پڑتے ہیں۔‘
محمد عمران کے مطابق ’ایک ماہ قبل انہیں کمپنی کے ہی نمبر سے میسج موصول ہوا اور بتایا گیا کہ آپ کے اکاؤنٹ غیر فعال ہو گیا ہے اور اسے فعال کرنے کے لیے قریبی ریٹلر سے رابطہ کریں۔ جبکہ کچھ سیکنڈز بعد ہی کمپنی کے ہی نمبر سے کال موصول ہوتی ہے جس میں ایک شخص کمپنی کا نمائندہ بن کر اکاؤنٹ فعال کروانے کے لیے ایک کوڈ بھیجتا ہے اور پھر درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کوڈ ان سے شیئر کیا جائے۔‘
محمد عمران بتاتے ہیں کہ انہوں نے کمپنی کا نمائندہ بن کر کال کرنے والے شخص کے ساتھ کوڈ شیئر کیا تو چند لمحوں بعد ان کے اکاؤنٹ سے تمام پیسے نکال لیے گئے۔
محمد عمران کی طرح کئی دیگر متاثرین نے بھی اسی قسم کی شکایات کے بارے میں اردو نیوز کو بتایا اور ان تمام افراد کے ساتھ ہونے والے دھوکے میں جو ایک چیز مشترک تھی وہ ٹیلی کام کمپنی کی جانب سے ہی میسج اور کال موصول ہونا تھا۔
پشاور کے ظہیر علی بھی اسی قسم کی دھوکہ دہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے اکاؤنٹ میں غلطی سے کچھ رقم ٹرانسفر ہو گئی ہے اور آپ کو ایک میسج کے ذریعے ایک کوڈ بھیجا گیا ہے جو شیئر کرنے کے بعد ان کے اکاؤنٹ سے 30 ہزار روپے سے زائد کی رقم نکلوا لی گئی۔

ظہیر علی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس حوالے سے کمپنی میں بھی شکایت درج کروائی لیکن ان کو رقم واپس نہیں دی گئی۔
ٹیلی کام کمپنیز کا کیا موقف ہے؟
موبائل بینکنگ کی ایک کمپنی سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ کچھ دنوں سے اس طرح کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے، چونکہ اس قسم کے فراڈ میں موبائل نمبرز اور انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جاتے ہیں تو یہ معاملہ براہ راست پی ٹی اے اور سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے اور صارفین کی شکایات متعلقہ محکموں تک پہنچا ب دی جاتی ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ ’ہیکنگ کے ذریعے کسی بھی نمبر کی ماسکنگ کی جاتی ہے اور جس نمبر کے ذریعے صارفین کو کال کی جاتی ہے وہ دراصل نمبر کوئی اور ہوتا ہے لیکن کال موصول کرنے والے شخص کو کمپنی کا ہی نمبر نظر آرہا ہوتا ہے اس لیے بعض اوقات ایسے نمبر کو بلاک یا رسائی حاصل کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس حوالے سے ایک محفوظ نظام بنانے کے ساتھ ساتھ صارفین میں آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے کہ کسی بھی شخص کے ساتھ ڈیٹا شیئر نہ کیا جائے۔‘
سٹییٹ بینک کا کیا موقف ہے؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’برانچ لیس بینکنگ کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہو رہی ہیں اور اس حوالے سے سٹیٹ بینک نے کمپنیوں کو اپنا نظام محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کر رکھی ہے تاہم ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے فراڈ اور دھوکہ دہی سے محفوظ رہنے کے لیے صارفین کی آگاہی کی بھی ضرورت ہے۔‘
