Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داعش کے دعوے کی صداقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں: پاکستان

دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ’کابل میں سفارت خانہ بند کر رہے ہیں نہ ہی سفارتی عملے کو واپس بلایا جا رہا ہے۔‘ (فوٹو: دفترِ خارجہ)
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کرنے کی خبروں کی صداقت کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اتوار کو دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم افغانستان کے حکام کے ساتھ مل کر اور آزادانہ طور پر ان اطلاعات کی صداقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
’یہ دہشت گرد حملہ افغانستان اور خطے کے امن کو درپیش خطرے کی یاد دہانی ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ’ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کاوشیں کرنا ہوں گی۔‘
’پاکستان دہشت گردی کے خاتمے لیے اپنے موقف پر سختی کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی

اس سے قبل اتوار ہی کو کابل میں پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’ایس آئی ٹی ای انٹیلیجنس گروپ‘ پر شائع بیان میں کہا گیا کہ داعش کی علاقائی شاخ نے دعویٰ کیا کہ اس نے ‘مرتد پاکستانی سفیر اور ان کے گارڈ پر حملہ کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ جمعے کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر حملہ کیا گیا جس کا نشانہ پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی تھے، جو محفوظ رہے۔
اے ایف پی کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور جائے وقوعہ کے قریب عمارت سے دو ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں.
پاکستانی سفارتخانے کے ایک افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک حملہ آور گھروں کے پیچھے سے آیا اور فائرنگ کرنا شروع کر دی تاہم ناظم الامور اور دیگر عملہ محفوظ رہا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’جمعے کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر حملے میں ایک پاکستانی سکیورٹی گارڈ سپاہی اسرار محمد مشن کے سربراہ کی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی ہوئے ہیں۔‘

افغان ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی

 حملے کے بعد اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے پاکستان کی جانب سے سخت تشویش سے آگاہ کیا گیا۔
دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ’کابل میں سفارت خانہ بند کر رہے ہیں نہ ہی سفارتی عملے کو واپس بلایا جا رہا ہے۔‘
جمعے کو ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ’پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور پاکستانی سفارتی عملے کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
’افغان ناظم الامور کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان کے سفارتی مشنز اور عملے کی حفاظت اور تحفظ افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ واقعہ سکیورٹی کی بڑی ناکامی ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی فوری تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
 ’سفارتی مشن کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بننے دیں گے‘
افغانستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کسی بھی بدنیتی پر مبنی عناصر کو کابل میں سفارتی مشن کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دے گی۔
’سعودی عرب ہمیشہ پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہے‘
سعودی عرب کی جانب سے بھی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ہر قسم کی دہشت گردانہ و پرتشدد کارروائیوں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان اور برادر پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی یقین دہانی کراتے ہیں، سعودی عرب ہمیشہ پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہے۔‘
خیال رہے کہ ماضی میں بھی افغانستان میں پاکستانی سفارت کاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ 
نومبر 2017 میں ایک پاکستانی سفارت کار نیئر اقبال رانا کو مشرقی افغانستان کے شہر میں ان کی رہائش گاہ کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

شیئر: