Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایئر انڈیا 500 چھوٹے بڑے طیاروں کی ’خریداری کے معاہدے کے قریب‘

ایئر انڈیا علاقائی اور بین الاقوامی فضائی مارکیٹ میں بڑا حصہ حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
انڈیا کی فضائی کمپنی ایئر انڈیا 500 سے زائد طیاروں کا تاریخی آرڈر دینے والی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے انڈیا کے بڑے کاروباری ٹاٹا گروپ کی ملکیتی کمپنی ایئر انڈیا کے حوالے سے اتوار کو بتایا کہ کمپنی کی جانب سے ممکنہ طور پر خریدے جانے والے اربوں ڈالرز مالیت کے ان طیاروں میں ایئر بس اور بوئنگ دونوں طرح کے جہاز شامل ہوں گے۔
اس آرڈر میں لگ بھگ 400 چھوٹے حجم کے جبکہ 100 یا اس سے کچھ زیادہ بڑے حجم کے جہاز شامل ہوں گے۔
ان میں سے ایک درجن کے لگ بھگ ایئر بس 350 ایس، بوئنگ 787 ایس اور 777 ایس بھی ہوں گے۔
روئٹرز نے فضائی انڈسٹری کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یہ ڈیل اب اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔
یہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا کسی بھی ائیرلائن کا طیاروں کی تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑا معاہدہ ہو گا۔
خیال رہے کہ ایک دہائی قبل امریکن ایئر لائنز نے 460 جیٹ اور ایئر بسوں کا آرڈر دیا تھا لیکن ایئر انڈیا اس آرڈر کے ذریعے جہازوں کی خریداری میں اس سے آگے نکل جائے گی۔
اس معائدے کے حوالے سے ایئر بس اور بوئنگ نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا جبکہ ٹاٹا گروپ نے بھی فوری طور پر اس پر تبصرہ نہیں کیا۔

اس آرڈر میں ایک درجن کے لگ بھگ ایئر بس 350 ایس، بوئنگ 787 ایس اور 777 ایس بھی شامل ہوں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ یہ متوقع معائدہ ٹاٹا کی جانب سے ایئر انڈیا اور سنگاپور کی ایئر لائنز کے جوائنٹ ونچر ’وِستارا‘ کے قیام کے اعلان کے چند دن بعد کی پیش رفت ہے جس کا مقصد علاقائی اور عالمی فضاؤں میں اپنی سروسز کو بڑھانا ہے۔
اس معائدے کے بعد ایئر انڈیا ملک کی سب بڑی جبکہ اس خطے کی دوسری بڑی فضائی کمپنی بن جائے گی۔
واضح رہے کہ ایئر انڈیا ایک زمانے میں اپنے شاہانہ انداز سے سجے ہوئے طیاروں اور شاندار سروسز کے لیے مشہور تھی لیکن 2000 کی دہائی کے وسط میں مالی مشکلات کے باعث اس کی ساکھ متاثر ہوئی تھی۔
اب ایئر انڈیا علاقائی اور بین الاقوامی فضائی مارکیٹ میں بڑا حصہ حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایئر انڈیا کی مضبوط عالمی پوزیشن کو بحال کرنے کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں ہیں جن میں مقامی سطح پر کمزور انفراسٹرکچر، پائلٹوں کی کمی اور مارکیٹ میں پہلے سے موجود خیلجی اور دیگر ممالک کی فضائی کمپنیوں سے مقابلہ شامل ہیں۔

شیئر: