حملے کے کئی گھنٹوں بعد طالبان کی حریف تنظیم داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
ایک بیان میں داعش نے کہا کہ ’اس کے دوعسکریت پسندوں نے چینی ہوٹل کو نشانہ بنایا کیونکہ اکثر سفیر اس ہوٹل جاتے ہیں اور یہ ’کمیونسٹ چین‘ کی ملکیت ہے۔‘
حملے میں ہلاک حملہ آوروں کی تعداد کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
طالبان حکام نے کہا تھا کہ تین حملہ آور ہلاک ہوئے تھے جبکہ داعش کا دعویٰ ہے کہ اس کے دو حملہ آوروں نے کارروائی میں حصہ لیا۔
طالبان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ’دو غیرملکی زخمی ہوئے ہیں، انہوں نے ہوٹل کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جان بچائی۔‘
تاہم کابل کے ایمرجنسی ہسپتال نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ تین لاشوں سمیت 21 افراد کو ہسپتال لایا گیا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبین نے اس حملے کو ’سنگین نوعیت‘ کا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے چین کو ’سخت صدمہ‘ پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور طالبان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ ’وہ افغانستان میں چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔‘
کابل میں چین کے سفارت خانے نے متاثرہ افراد کے ریسکیو، علاج معالجے اور رہائش کے انتظامات میں مدد کے لیے اپنی ٹیم کو بھیجا تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر، وزارت خارجہ ایک مرتبہ پھر چینی شہریوں اور اداروں کو افغانستان سے نکلنے کی ہدایت کرتی ہے۔
2021 میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد داعش نے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔