جوزف ناتھن نے اے ایف پی کو انٹرویو میں چارلس سوبھراج کے حوالے سے بتایا کہ ’وہ ایک بوڑھے شخص کی طرح دِکھتا تھا۔ آپ اس پر دوسری نگاہ نہ ڈالتے۔ وہ بے ضرر لگ رہے تھے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ میں نے انہیں پہچان لیا۔‘
چارلس سوبھراج 20 سے زائد قتل کے جرائم میں ملوث تھے جن میں سے اکثر مارے جانے والے ایشیائی ہپی ٹریل پر نوجوان غیر ملکی تھے۔
بالآخر 1976 میں انڈیا میں انہیں گرفتار کر کے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کر دیا گیا۔
لیکن وہ جیل کے محافظوں کو نشہ آور اشیا دینے کے بعد فرار ہو گئے تاہم انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔
جوزف ناتھن نے بتایا کہ ’رہائی کے بعد وہ فرانس چلے گئے اور پھر یہ سوچ کر 2003 میں نیپال کا سفر کیا کہ وہاں کے حکام انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔‘
وہ اب بھی 1975 میں دو سیاحوں کے قتل میں مطلوب تھے اور یہ اُن کی بدقسمتی تھی کہ انڈین صحافی نے انہیں پہچان لیا۔
ہمالین ٹائمز کے ایڈیٹوریل ایڈوائزر جوزف ناتھن نے بتایا کہ ’کسینو مینیجر میرا دوست تھا اور ہم نے انہیں (سوبھراج) سکیورٹی کیمرے پر ایک ساتھ دیکھا۔ میں نے ایک فوٹوگرافر کو 24 گھنٹے اس کے ہوٹل میں تعینات کیا جو ایک سستا ہوٹل تھا۔ ہر رات وہ کسینو میں کارڈز کھیلتے تھے۔‘
اس دوران ناتھن نے ہوٹل کے منیجر سے سوبھراج کے پاسپورٹ کی ایک کاپی حاصل کر لی۔ انہوں نے ایک جعلی نام سے چیک اِن کیا تھا۔
ناتھن نے بتایا کہ 12ویں یا 13ویں دن میں نے ان کا پیچھا کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ چارلس سوبھراج ہیں۔‘
انہوں نے پوچھا کہ کیا وہ بالی ووڈ اداکار ہے؟ اسی رات میں نے کہانی لکھی اور اگلے دن انہیں پولیس نے کسینو سے گرفتار کر لیا۔‘
سوبھراج، جو اب 78 برس کے ہیں اور دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، ان کے وکیل کے مطابق جمعے کو جیل سے رہا ہو کر فرانس واپس جا چکے ہیں۔
صحافی جوزف ناتھن کے خیال میں فیصلہ منصفانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ وقت تھا کہ انہیں رہا کیا جائے کیونکہ وہ نیپال کے قانون کے مطابق اپنی سزا کاٹ چکے ہیں۔‘
یاد رہے کہ 1970 کی دہائی میں ایشیا بھر میں نوجوان غیر ملکیوں کے قتل کے مجرم چارلس سوبھراج کو نیپالی جیل میں تقریباً 20 سال گزارنے کے بعد جمعے کو رہا کر دیا گیا ہے۔
فرانسیسی نژاد چارلس سوبھراج پر ’دی سرپنٹ‘ کے نام سے سیریز بھی بن چکی ہے جو نیٹ فلکس پر دیکھی جا سکتی ہے۔