Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا بابر اعظم 2023 میں کرکٹ ٹیم کے کپتان رہ سکیں گے؟   

سابق سینیئر کرکٹر محمد حفیظ بھی کئی بار بابراعظم کی کپتانی پر تنقید کر چکے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے رواں برس ہوم سیزن کافی مصروف رہا اور غیرملکی ٹیموں نے ایک طویل عرصے بعد پاکستان کے کامیاب دورے کیے۔
رواں سال آسٹریلیا نے پاکستان کی سر زمین پر 24 برس بعد ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی20 سیریز کھیلی جبکہ انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا 17 برس بعد ٹیسٹ سیریز کے لیے دورہ کیا۔ اس کے علاوہ سال کے آخر میں نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کے لیے پاکستان کے دورے پر پہنچ چکی ہے۔  
سنہ 2022 پاکستان ٹیم کے لیے مصروف ترین سال رہا، جس میں پاکستان نے آٹھ ٹیسٹ میچز، نو ایک روزہ جبکہ 26 ٹی20 میچز کھیلے، جن میں ٹی20 ورلڈ کپ اور ایشیا کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹس بھی شامل ہیں۔   
محدود اوورز کی طرز کی کرکٹ میں بابر اعظم الیون نے بہتر کھیل پیش کیا تاہم ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی ٹیم کے لیے رواں برس ناکامیوں کا سال ثابت ہوا ہے۔  
پاکستان نے سنہ 2022 میں تین ٹیسٹ سیریز کھیلیں جن میں سے ایک میں بھی اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ گرین شرٹس صرف ایک ٹیسٹ میچ ہی جیت پائی۔
پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میں ایک صفر سے شکست ہوئی۔ بابر الیون نے ٹیسٹ سیریز کے لیے سری لنکا کا دورہ کیا جہاں سیریز ایک ایک سے برابر کرنے میں کامیاب رہے تاہم انگلینڈ کے خلاف 17 برس بعد ہوم سیریز میں بدترین ناکامی کا سامنا رہا اور سیریز میں پہلی بار تین صفر سے تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔    
کپتان بابر اعظم نے ٹیسٹ میچز میں ایک منفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ انہوں نے 22 سال بعد مسلسل دو ہوم ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دو چار ہونے والے کپتان کا اعزاز حاصل کیا جبکہ وہ پاکستان کے پہلے کپتان بن گئے جنہیں ہوم سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔  
سنہ 2022 میں بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم کو آٹھ میچز میں سے پانچ میں ناکامی، دو ٹیسٹ میچز ڈرا جبکہ صرف ایک ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔  
گزشتہ برس 2021 میں بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم جنوبی افریقہ، زمبابوے اور بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب رہی تھی جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ایک ایک سے برابر کھیلی۔ 

انفرادی اننگز میں آسٹریلیا کے خلاف 196 رنز رواں برس بابر اعظم کی بہترین کارکردگی رہی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انفرادی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو سنہ 2022 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے آٹھ ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں انہوں نے 67 کی اوسط سے 1009 رنز سکور کیے جن میں تین سینچریاں اور سات نصف سینچریاں شامل تھیں۔  
کپتان بابر اعظم کی انفرادی طور پر ٹیسٹ کرکٹ کا ریکارڈ بہتر رہا تاہم ان کی اننگز ٹیم کے لیے مثبت نتائج نہ لا سکیں۔   
انفرادی اننگز میں آسٹریلیا کے خلاف دوسری اننگز میں 196 رنز، رواں برس ان کی بہترین اننگز میں شامل ہے جس کی بدولت ٹیم میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ آسٹریلیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں نصف سینچریاں بنائیں، اس کے باوجود پاکستان ٹیسٹ میچ نہ بچا سکا۔   
انگلینڈ کے خلاف پنڈی ٹیسٹ کی سینچری کے باوجود ٹیم پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف سکور کی جانی والی نصف سینچریوں کے باوجود بھی میچ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نہ آ سکا۔  

ٹیسٹ میچ کے برعکس محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی بہتر  

ون ڈے انٹرنیشنل میچز پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے رواں برس نو ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے جن میں سے آٹھ میں کامیابی حاصل کی اور ایک میچ میں اس کو ناکامی کا سامنا رہا۔
پاکستان نے اس سال آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم جبکہ نیدرلینڈ کے خلاف اوے ون ڈے سیریز کھیلی۔ پاکستان تینوں سیریز جیتنے میں کامیاب رہا ہے۔   
انفرادی طور پر کپتان بابر اعظم نے نو میچز میں 84 کی اوسط سے 679 رنز سکور کیے جن میں 3 سینچریاں اور 5 نصف سینچریاں شامل رہیں۔   

تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ کے مطابق بابر اعظم بطور کپتان خود کو منوانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ٹی20 میں زمبابوے سے شکست سال کی بری ترین کارکردگی 

ٹی20 میچز میں میں پاکستان نے 26 میچز کھیلے جن میں ایشیا کپ، ٹی20 ورلڈ کپ اور سہ فریقی سیریز بھی شامل تھی۔   
پاکستان ٹیم ٹی20 اور ایشیا کپ میں رنز اپ رہی جبکہ نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف سہ فریقی سیریز جیتنے میں کامیاب رہی۔
رواں برس پاکستان آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹی20 میچ پر مشتمل سیریز میں ایک صفر سے ناکام رہا، انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں بھی پاکستان کو تین کے مقابلے میں چار میچز سے شکست ہوئی۔   
ٹی20 میچز میں پاکستان اور انڈیا کا تین بار آمنا سامنا ہوا جس میں دو بار ایشیا کپ اور ایک بار ٹی20 کے عالمی مقابلوں میں روایتی حریف مدمقابل رہے۔
پاکستان کو ایشیا کپ کے میچز میں ایک میں شکست جبکہ ایک میچ میں انڈیا کے خلاف کامیابی ملی جبکہ ٹی20 ورلڈکپ کے میچ میں کانٹے کے مقابلے کے بعد پاکستان آخری گیند پر میچ ہار گیا۔   
ٹی20 ورلڈ کپ کے دوران زمبابوے کے ہاتھوں شکست رواں برس پاکستان ٹیم کی سب سے بدترین کارکردگی رہی۔ انفرادی طور پر کپتان بابر اعظم نے 26 میچز میں 31 کی اوسط سے 735 رنز سکور کیے جن میں ایک سینچری اور 5 نصف سینچریاں شامل ہیں۔  

کیا بابر اعظم اپنی کپتانی برقرار رکھ پائیں گے؟   

ریکارڈز کو دیکھا جائے تو پاکستان کی ٹیم نے بابر اعظم کی قیادت میں محدود اوورز کی کرکٹ میں ٹیسٹ میچ کی نسبت بہتر کارکردگی دکھائی ہے تاہم ہوم ٹیسٹ سیزن میں خراب کارکردگی نے ان کی قیادت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ 
 سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس اس وقت آپشنز محدود ہیں۔
’اگر بابر اعظم کو ٹیم کی قیادت سے ہٹایا جائے گا تو پھر کسے قیادت سونپی جائے گی؟ اس وقت کوئی بھی کھلاڑی ایسا نہیں جو ٹیم کا مستقل حصہ ہو۔‘   
انہوں نے کہا کہ ’بابر اعظم کو کپتان بنانے کا فیصلہ اسی لیے کیا تھا کہ وہ واحد کھلاڑی ہیں جو اس وقت ٹیم کا مستقل حصہ ہیں، شان مسعود کی بات کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک تو وہ خود اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہوئے ہیں۔‘   
ہارون رشید کے مطابق ’پاکستان کے ڈومیسٹک سٹرکچر کو جب تک بہتر نہیں کیا جاتا مسائل رہیں گے، پاکستان کے مقامی اور انٹرنیشنل کرکٹ کے معیار میں بہت بڑا خلا موجود ہے۔ نئے لڑکوں کی فٹنس پر کام نہیں کیا جاتا انہی خامیوں کے سبب پاکستان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘  
سینیئر کرکٹ تجزیہ نگار مرزا اقبال بیگ نے بابر اعظم کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بابر اعظم بطور کپتان خود کو منوانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ون ڈے اور ٹی20 میں خامیاں اس طرح کھل کر سامنے نہیں آتیں لیکن ٹیسٹ میچ امتحان ہوتا ہے اور یہ کپتان کا بھی امتحان ہے، جس میں بابر اعظم ناکام ہوئے ہیں۔‘   
مرزا اقبال بیگ کے مطابق ’بابر اعظم کی اپنی کارکردگی بہتر رہی ہے لیکن محمد رضوان کی انفرادی کارکردگی اتنی بہتر نہیں جس کی وجہ سے انہیں ابھی قیادت نہیں سونپی جا سکتی، پاکستان کے پاس شان مسعود بھی بطور کپتان ایک آپشن موجود ہے جن کے اندر قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ ٹیم کو آگے لے کر چل سکتے ہیں۔‘  

رواں سال پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ایک روزہ میچوں میں بہتر رہی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق ٹیسٹ کرکٹر توصیف احمد سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان کو ٹیسٹ اور محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے مختلف ٹیمیں رکھنا ہوں گی، بابر اعظم بطور کپتان ناکام ہو چکے ہیں انہیں اپنی بلے بازی پر توجہ دے کر پاکستان کو میچ جتوانے پر مرکوز ہو جانا چاہیے۔‘   
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس آپشنز کم ہیں، ہم نے نوجوان کھلاڑیوں پر کام نہیں کیا، سینیئرز کھلاڑیوں نے بھی اپنے متبادل تیار نہیں کیے اور جب کسی کو اختیار دے دیا جاتا ہے وہ اپنا ایک گروپ بنا لیتا ہے جس کی وجہ سے پھر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘  
توصیف احمد کے خیال میں ’صرف بابر اعظم نہیں بلکہ سلیکشن کمیٹی کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ٹی 20 ورلڈ کپ کے دوران بھی دوسری ٹیموں پر انحصار کر کے فائنل تک پہنچے ورنہ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے خلاف پرفارمنس کے علاوہ پاکستان کی کارکردگی مایوس کن تھی۔‘   
تاہم کئی پاکستانی اور بین الااقوامی مبصرین بابر اعظم کی صلاحیتوں کے قائل ہیں اور ان کو سپورٹ فراہم کرنے کے حق میں ہیں۔  
پاکستان اور انگلینڈ کی حالیہ ٹیسٹ سیریز کے دوران انگلینڈ کے سابق کپتان ناصر حسین کا کہنا تھا کہ بابر اعظم کو صرف میچوں کے نتیجے پر نہیں پرکھنا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کے ’طلسماتی بولر‘ شاہین شاہ آفریدی انجری کا باعث ٹیم کا حصہ نہیں اور دیگر بولرز بھی انجری کا شکار ہیں۔  
ناصر حسین کا پاکستانی کپتان کو مشورہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’بابر سیکھ سکتے ہیں جیسے بحیثیت بیٹر آپ سیکھتے ہیں۔ اسی طرح بحیثیت کپتان بھی آپ سیکھ سکتے ہیں۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ ہمیشہ سیکھ سکتے ہیں، دیکھیں بین سٹوکس کیسی کپتانی کر رہے ہیں۔‘  
سابق انڈین کپتان محمد کیف نے بابر اعظم اور محمد رضوان دونوں پر ہونے والی تنقید کے جواب میں کہا تھا کہ ’سوشل میڈیا ٹرینڈز کو فالو نہ کریں بلکہ ان کی کلاس دیکھیں۔ بڑے کھلاڑی صرف اس لیے نہیں جھٹلائے جا سکتے کہ وہ فارم میں نہ ہوں۔‘  
لیکن پاکستان کے سابق سینیئر کرکٹر محمد حفیظ بھی کئی بار بابراعظم کی کپتانی پر تنقید کر چکے ہیں۔  
ٹی20 ورلڈ کپ کے دوران ایک ٹی وی شو میں محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ ’بابراعظم کی کپتانی ہمارے سامنے مقدس گائے بن گئی ہے۔‘  
محمد حفیظ کا دعویٰ تھا کہ ’بڑے میچوں میں بابر اعظم کی کپتانی میں کوتاہیاں نظر آتی ہیں اور وہ بڑے میچوں میں اپنے بولرز اور بیٹرز کا درست استعمال نہیں کرتے۔‘

شیئر: