چین کی حکومت میں ملک میں کورونا کی نئی لہر سے متاثر ہونے والے افراد کے درست اعداد وشمار سرکاری طور پر ظاہر نہیں کر رہی۔
عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے سخت اقدامات کو چین کی حکومت نے رواں ماہ تیزی سے ختم کر دیا تھا جس کے خلاف شہریوں میں غم و غصہ تھا۔
چین نے گزشتہ کافی عرصے تک زیرو کووڈ پالیسی کے تحت وبا کی روک تھام کے لیے سنیپ لاک ڈاؤن، طویل قرنطینہ اور سفری پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔
چینی شہری انفیکشن کے بڑھتے کیسز کے باعث ادویات کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہیں جہاں فارمیسیوں کے شیلف خالی اور ہسپتالوں کے وارڈز مریضوں سے بھر رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق چین میں اموات میں اضافے کے باعث مرنے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لواحقین کو طویل انتظار کا سامنا ہے۔
چین میں حکام نے وائرس کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کا انتظامی حکم ختم کر دیا ہے اور کورونا کے باعث موت کی تعریف کو محدود کرنے سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ متاثرین کی اصل تعداد سامنے نہیں آ سکے گی۔
جمعے کو چنگ ڈاؤ سے شائع ہونے والے حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ایک اخبار نے رپورٹ دی کہ میونسپل ہیلتھ چیف نے کہا ہے کہ شہر میں یومیہ پانچ لاکھ سے زائد کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
میونسپل ہیلتھ چیف باؤ تاؤ نے کہا کہ شہر میں انفیکشن بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ساحلی چنگ ڈاؤ کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
اس رپورٹ کو دیگر کئی اخبارات نے بھی حوالے کے ساتھ شیئر کیا تاہم سنیچر کی صبح ایڈٹ کر کے کورونا کیسز کے اعداد وشمار ہٹا دیے گئے۔