Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

این جی اوز میں خواتین کے کام پر پابندی افغانستان کے لیے تباہ کن: امریکہ

کابل اور دیگر شہروں میں خواتین نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے مظاہرے بھی کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین کے غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) میں کام پر پابندی سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے اس فیصلے کو افغانستان کے لیے ’تباہ کن‘ قرار دیا۔
’سخت تشویش ہے کہ افغانستان میں غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی سے لاکھوں افراد کو اہم اور زندگی بچانے والا امداد پہنچانے میں دشواری ہوگی۔‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی طالبان کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ طالبان کا حکم خواتین کو معاشرتی منظرنامے سے ہٹانے کی افسوسناک کوشش ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ پابندی خواتین کا سیاسی، سماجی اور اقتصادی  کردار ختم کرنے کی کوشش ہے۔
سنیچر کو افغانستان میں طالبان نے خواتین کو ملکی اور غیر ملکی تنظیموں میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔
افغان وزارت برائے اقتصادیات نے کہا تھا کہ غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے لباس سے متعلق ’سنجیدہ شکایات‘ موصول ہوئی ہیں جس کے بعد انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

افغانستان میں خواتین کے یونیورسٹیوں میں بھی جانے پر پابندی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تمام این جی اوز کو بھیجے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’خواتین کے ملکی اور غیر ملکی تنظیموں میں کام کرنے سے متعلق قواعد و ضوابط اور اسلامی حجاب کی پابندی نہ کرنے سے متعلق سنجیدہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔
منگل کو طالبان کی حکومت نے ملک بھر کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو دستخط شدہ ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا کہا تھا۔
مراسلے میں کہا گیا تھا کہ اگلے حکم نامے تک خواتین کی تعلیم معطل رہے گی جبکہ اس سے پہلے ہی نوعمر لڑکیوں کی ثانوی سکول کی تعلیم پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔
طالبان کے اس فیصلے پر بین الاقوامی برادری، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ افغان طالبان اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

شیئر: