Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان نے خواتین کو ملکی اور غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے سے روک دیا

طالبان خواتین کی یونیورسٹی تعلیم پر بھی پابندی عائد کر چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں طالبان حکام نے خواتین کو ملکی اور غیر ملکی تنظیموں میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔
افغان وزارت برائے اقتصادیات نے سنیچر کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) میں کام کرنے والی خواتین کے لباس سے متعلق ’سنجیدہ شکایات‘ موصول ہوئی ہیں جس کے بعد انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
تمام این جی اوز کو بھیجے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’خواتین کے ملکی اور غیر ملکی تنظیموں میں کام کرنے سے متعلق قواعد و ضوابط اور اسلامی حجاب کی پابندی نہ کرنے سے متعلق سنجیدہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔‘
اعلامیے کے مطابق ’وزارت برائے اقتصادیات تمام اداروں کو ہدایت کرتی ہے کہ آئندہ احکامات تک خواتین کو کام کرنے سے روکا جائے۔‘
خیال رہے کہ رواں ہفتے کے دوران طالبان کا خواتین سے متعلق یہ دوسرا فیصلہ ہے جس کے تحت انہیں بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ 
منگل کو افغان طالبان کے وزیر برائے اعلٰی تعلیم ندا محمد ندیم نے ملک بھر کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو دستخط شدہ ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا کہا تھا۔
مراسلے میں کہا گیا تھا کہ اگلے حکم نامے تک خواتین کی تعلیم معطل رہے گی، جبکہ اس سے پہلے ہی نوعمر لڑکیوں کی ثانوی سکول کی تعلیم پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔
طالبان کے اس فیصلے پر مسلمان ممالک کی جانب سے بھی سخت رد عمل آیا ہے اور افغان حکومت کو نظر ثانی کرنے کا کہا گیا ہے۔ 

طالبان کے مطابق خواتین کے حجاب سے متعلق شکایات موصول ہوئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

جی سیون ملکوں کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں سے سلوک کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیتے ہوئے طالبان سے خواتین کی اعلٰی تعلیم پر پابندی کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
جبکہ سعودی وزارت خارجہ نے حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کا فیصلہ افغان خواتین کے جائز شرعی حقوق کے بھی منافی ہے اور ان حقوق میں تعلیم کا حق سرفہرست ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی طالبان کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ ترجمان دفتر خارجہ نے زور دیا کہ افغان حکام کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
گزشتہ سال اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے خواتین کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے مختلف پابندیاں عائد کی ہیں۔

شیئر: