Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قید نہیں ہونا چاہتی‘، کابل یونیورسٹی کے سامنے اکیلی لڑکی کا احتجاج

طالبان نے گزشتہ ہفتے خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی عائد کی تو اس پر پوری دنیا سے ردعمل دیکھنے میں آیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایک 18 سالہ افغان لڑکی نے افغانستان کے نئے حکمرانوں کی جانب سے لڑکیوں کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی کے خلاف منفرد انداز میں احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مروہ نامی لڑکی نے اتوار کو کابل یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے چند میٹر کے فاصلے پر تنہا کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔
مروا کا کہنا تھا کہ ’یہ زندگی کا پہلا موقع ہے کہ میں بہت فخر محسوس کر رہی ہوں اور ان کے سامنے کھڑے ہو کر خدا کے دیے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے خود کو بہت مضبوط تصور کر رہی ہوں۔‘
خیال رہے کہ افغانستان میں خواتین کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کم کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد رواں برس کے آغاز میں ہونے والی گرفتاریوں کے بعد یہ مظاہرے مزید کم ہو گئے ہیں۔
ان مظاہروں میں شرکت کرنے والی خواتین کو گرفتاری، تشدد اور معاشرے میں بدنامی کا خطرہ رہتا ہے لیکن مروہ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
کابل یونیورسٹی کے باہر مروہ کے اس احتجاج کی ویڈیو ان کی بہن نے ایک کار سے ہو کر ریکارڈ کی۔
طالبان نے گزشتہ ہفتے خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی عائد کی تو اس پر پوری دنیا سے ردعمل دیکھنے میں آیا۔
اس فیصلے کے خلاف کچھ خواتین نے احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں فوری طور پر حکام نے منتشر کر دیا تھا۔
مروہ  کابل یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر کھڑے طالبان اہلکاروں کے سامنے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ اٹھا کر کھڑی رہیں جس پر عربی زبان کا لفظ ’اقرأ‘ یعنی پڑھو درج تھا۔
مروہ کے مطابق ’انہوں نے مجھ سے بدکلامی کی لیکن میں سکون سے وہیں کھڑی رہی۔‘
’میں تنہا افغان لڑکی کی طاقت دکھانا چاہتی تھی۔ اکیلا شخص بھی جبر کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’جب میری دوسری بہنیں (طالبات) دیکھیں گی کہ ایک لڑکی طالبان کے خلاف کھڑی ہوئی ہے تو یہ طالبان کو شکست دینے کے لیے اٹھنے میں ان کی مدد کرے گا۔‘
طالبان نے گزشتہ برس اگست میں ملک کنٹرول سنبھالتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ خواتین کے حوالے سے نسبتاً نرم رویہ اپنائیں گے لیکن انہوں نے خواتین پر سخت ترین پابندیاں عائد کی دی ہیں۔

طالبان کا موقف ہے کہ یہ پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ خواتین اسلامی طرزِ لباس کی پابندی نہیں کر رہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

سنیچر کو طالبان نے ایک اور حکم نامہ جاری کیا جس میں امدادی تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
دوسری جانب لڑکیوں کے سیکنڈری سکول گزشتہ ایک برس سے بند پڑے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو گھر رہنے کے بدلے تنخواہ کا کچھ حصہ دیا جا رہا ہے۔
خواتین کو عوامی مقامات، پارکس اور جِمز میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔
طالبان کا موقف ہے کہ یہ پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ خواتین اسلامی طرزِ لباس کی پابندی نہیں کر رہیں۔
طالبان کے خلاف تنہا احتجاج کرنے والی مروہ نے اے ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’میں قید نہیں ہونا چاہتی۔ میرے کچھ بڑے خواب ہیں جنہیں میں نے حاصل کرنا ہے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ میں نے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔‘

شیئر: