Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مسلم لیگ ن پر پنجاب میں پھر گھیرا تنگ ہو رہا ہے؟

گزشتہ دو تین دنوں میں پنجاب بھر سے مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماوں کو کارکنوں کو پولیس نے مختلف مقدمات میں حراست میں لیا ہے۔ (فوٹو: پی ایم ایل این فیس بک)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جنوری کے وسط تک سیاسی ہل چل میں بظاہر کمی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ صوبے کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا اس کا فیصلہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہے۔
لیکن جیسے ہی ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہی کو ہٹائے جانے کے گورنر کے نوٹیفکیشن پر حکم امتناعی جاری کیا، اس کے بعد کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس اور محکمہ انٹی کرپشن نے گرفتار کیا ہے۔
پہلی گرفتاری ساہیوال سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایم این اے چوہدری اشرف کی عمل میں آئی۔ ان کو محکمہ انٹی کرپشن پنجاب نے حراست میں لیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس گرفتاری کی مذمت وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی کر چکے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں دو روز قبل لاہور کے سابق ڈپٹی میئر صلاح الدین کو پی ایچ اے کے ایک فنکشن میں نعرے لگانے اور ہلڑ بازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ مہینے جیلانی پارک میں ونٹر فیسٹویل کے افتتاح کے موقع پر خواتین سمیت کچھ افراد نے عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔ اس وقت سٹیج پر صوبائی وزیر میاں اسلم خطاب کر رہے تھے اور نعرے لگانے والوں کو پولیس نے تقریب سے نکال دیا تھا۔ سابق ڈپٹی میئر کو اسی الزام میں ایک مہینے کے بعد گرفتار کیا گیا۔
گزشتہ دو تین دنوں میں پنجاب بھر سے مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماوں کو کارکنوں کو پولیس نے مختلف مقدمات میں حراست میں لیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی صوبائی ترجمان عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ ’موجودہ حکومت کو نظر آچکا ہے کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں اس لیے وہ ایسے ہتھکنڈوں پر آچکے ہیں۔ لیکن ہم کسی طور پر بھی گھبرانے والے نہیں ہیں۔ ہم نے اس سے برے وقت بھی دیکھے ہوئے ہیں جن میں ہماری پوری قیادت اندر تھی۔ پرویز الہی اب صرف چند دنوں کے مہمان ہیں۔ ہمارے کئی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ صلاح الدین صاحب کو بچوں کے سامنے گرفتار کیا گیا۔‘
خیال رہے کہ ایم این اے چوہدری اشرف ریمانڈ پر ہیں جبکہ صلاح الدین کی عدالت نے ضمانت لے لی ہے۔ چوہدری پرویز الہی کی جولائی میں حکومت سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ ن دوسری مرتبہ یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ ان کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عظمٰی بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اطلاعات آرہی ہیں کہ انٹی کرپشن میں نئی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں اور کچھ لوگوں کو بھی جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا جائے گا۔‘

پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ البتہ ان الزامات کو رد کرتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال جب وزیر اعلی عثمان بزدار کی حکومت ختم ہوئی اور کچھ عرصے کے لئے حمزہ شہباز وزیراعلی بنے تو اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی قریبی دوست سمجھی جانے والی فرح گوگی کے خلاف اس محکمہ انٹی کرپشن نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ تاہم پرویز الہی کی حکومت آتے ہی ان تحقیقات کو ختم کر دیا گیا۔
پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ البتہ ان الزامات کو رد کرتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت اگر کسی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو وہ تحریک انصاف ہے اور اس کی لیڈر شپ ہے۔ کہاں ہیں اعظم سواتی؟ وفاقی حکومت نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ انٹی کرپشن نے اگر کوئی گرفتاری کی ہے تو اس کا الزام بھی بتایا ہے۔ ان چوروں کو پتا ہے انہوں نے کہاں کہاں چوریاں کی ہوئی ہیں۔ اس میں سیاسی انتقام کہاں سے آگیا؟ اگر آپ سو سو ایکڑ پر قبضے کریں گے تو کیا آپ سے پوچھا بھی نہ جائے؟‘

شیئر: