رواں برس انگلینڈ نے ٹی20 ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)
رواں برس اختتام کے قریب ہے، ان 12 ماہ میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جو اگلے برس بھی کرکٹ پر حاوی رہیں گے۔
عرب نیوز کے مطابق پہلا کووڈ 19 ہے۔ اس کی وجہ سے سنہ 2020 میں ہونے والا ٹی20 ورلڈ کپ تاخیر کا شکار ہوا اور اسے انڈیا سے متحدہ عرب امارات اور عمان منتقل کرنا پڑا۔
ساتھ ہی اس نے انگلینڈ کے آسٹریلیا کے ایشز دورے میں بھی خلل ڈالا۔ جنوری میں پرتھ میں ہونے والا ٹیسٹ میچ مغربی آسٹریلیا میں سرحدی پابندیوں کی وجہ سے شارٹ نوٹس پر تسمانیہ منتقل کرنا پڑا۔
یہ سب بہت پہلے کی بات لگتی ہے تب سے انگلینڈ نے جہاں ٹی20 ورلڈ کپ جیتا ہے وہی اپنے آخری 10 میں سے نو ٹیسٹ میچ بھی جیتے ہیں۔
کووڈ 19 کے اثرات دوسرے آنے والے ٹورنامنٹس میں ببھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں انڈیا میں شیڈول 2023 ون ڈے ورلڈ کپ میں علاقائی دلچسپی کا حامل بھی ہے۔
عمان اور متحدہ عرب امارات دونوں کوالیفائنگ مراحل کی لیگ ٹو میں ٹاپ تھری میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اگلے مرحلے تک جا سکیں۔
ہر ٹیم نے 36 میچ کھیلنے ہیں۔ عمان اپنا یہ ہدف پورا کر چکا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے ابھی 10 میچ باقی ہیں۔
دوسرا واقعہ کووڈ 19 سے متعلق نہیں ہے۔ ستمبر 2023 میں ایشیا کپ کا انعقاد پاکستان میں ہونا ہے۔ تاہم بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کے سیکریٹری نے جو ایشیا کرکٹ کونسل کے بھی صدر ہیں، اکتوبر کے اوائل میں کہا تھا کہ انڈین ٹیم پاکستان نہیں جائے گی اور میچ نیوٹرل مقام پر کھیلے جائیں گے۔
اس بات پر اُس وقت کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ خفا ہو گئے اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ پاکستان بھی سنہ 2023 میں انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کر سکتا ہے۔
رمیز راجہ کو عمران خان نے تعینات کیا تھا اور انہیں خود رواں برس اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنے عہدہ چھوڑنا پڑا۔
یہ حیران کن تھا کہ عمران خان کے جانے کے باوجود رمیز راجہ اپنے عہدے پر برقرار رہے لیکن رواں مہینے ان کی جگہ نجم سیٹھی کو پی سی بی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔
نجم سیٹھی نے سنہ 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔
پاکستان میں وزیراعظم پی سی بی کا پیٹرن انچیف ہوتا ہے اور اس کے پاس کسی کو بھی معطل کرنے کا حتمی اختیار ہوتا ہے۔
رمیز راجہ اور ان کے ساتھ دوسرے افراد کی برطرفی کو بی سی سی آئی کے خلاف سخت زبان کا نتیجہ سمجھنا ایک مفروضہ ہے۔
نجم سیٹھی کہہ چکے ہیں کہ انڈیا میں کھیلنے کا فیصلہ حکومتی سطح پر کیا جائے گا۔
اگلے برس انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے کرکٹ کے میدان کے اندر اور باہر بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
اس کے علاوہ آئی سی سی اور انڈین کرکٹ بورڈ کے درمیان ٹیکس کا تنازع بھی ایک حل طلب معاملہ ہے۔
آئی سی سی نے انڈین کرکٹ بورڈ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی حکومت سے آئی سی سی کے زیراہتمام ٹورنامنٹس کے لیے ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرے۔
تاہم انڈیا کے ٹیکس کے ضوابط ایسی چھوٹ کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
سنہ 2016 میں انڈیا میں ہونے والے ٹی20 ورلڈ کپ میں بی سی سی آئی کو دو کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا تھا کیونکہ آئی سی سی نے انڈیا کے ریونیو شیئر میں سے پیسے کاٹ لیے تھے۔ اس کے بعد قانونی جنگ شروع ہو گئی۔
ٹیکس کا یہ معاملہ سنہ 2023 ون ڈے ورلڈ کپ سے متعلق موجودہ مذاکرات کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انڈین حکومت ایونٹ سے آئی سی سی کی نشریاتی آمدنی پر 21.84 فیصد ٹیکس سرچارج لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آئی سی سی اس سے استثنیٰ چاہتا ہے، لیکن انڈین کرکٹ بورڈ ابھی تک وزارت خزانہ کے ساتھ بات چیت میں کسی حل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
اگرچہ اس بات کے امکانات ہیں کہ سنہ 2023 میں کرکٹ وبا سے اتنی متاثر نہیں ہو گی لیکن 2021 میں ایک ایسا سکینڈل سامنے آیا جس نے کھیل کی خوبصورتی کو گہنا دیا۔
عظیم رفیق اور انگلش کرکٹ کا معاملہ، خاص طور پر یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب، نومبر 2021 میں خاصا ہنگامہ آرائی کا سبب بنا۔ پارلیمانی سلیکٹ کمیٹی کے سامنے رفیق کی دلخراش گواہی اور انگلش اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے نمائندے کے سخت ردعمل اور رویوں نے کرکٹ میں نسل پرستی کے حوالے سے تنازعات کو اجاگر کیا۔
تقریباً فوراً ہی یارکشائر کے چیئر اور سی ای او نے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد کوچنگ اور کچھ انتظامی عملہ بھی چلا گیا۔ بڑے سپانسرز نے سپانسر شپس ختم کر دی۔
لارڈ پٹیل کو نیا چیئرمین مقرر کیا گیا اور نیا کوچنگ عملہ بھی لایا گیا۔
دریں اثنا ای سی بی صدمے کا شکار نظر آیا۔ اس کے سی ای او جون 2022 میں چلے گئے۔ نیا سی ای او یکم جنوری سے اپنا کام شروع کرے گا جبکہ ایک نیا چیئرمین اگست میں آئے گا۔
امید کی جانی چاہئے کہ 2023 کھیل میں نسل پرستی کے خلاف مثبت اقدامات کا آغاز کرے گا۔