یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ڈگری بڑی حاصل کرلی تو نوکری لازمی کرنی ہے
- - - - - - - - - - -
اُم مزمل۔جدہ
- - - - - - -- - - -
وہ اپنی فرمائش نہ ماننے پر برا مان گئی تھی۔ وہ دل کھول کر ہنس رہا تھا۔ وہ احتجاج کررہی تھی کہ ایسی کیاغلط بات ہے، اگر آج میری خواہش رد کئے جانے پر ہنس رہے ہیں تو کل آپ کو بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ تم تو آج دادا جان کے پاس اسکواش کورٹ بنوانے کی فرمائش کیلئے گئی تھیں۔ہم سارے کزنز تو کئی سال پہلے ان کے پاس اجتماعی درخواست لے کر پہنچے تھے کہ ہمارے پاس اتنی اراضی ہے کہ اس کو گولف کیلئے مختص کردیا جائے تو ہمیں پریکٹس کرنے میں بھی آسانی رہے گی اور ہم دوسرے شہروں سے گولف میں دلچسپی لینے والوں کو اپنے یہاں اس کھیل کے مقابلے منعقد کرانے کیلئے دعوت بھی دیں گے۔ تو معلوم ہے دادا جان نے کیا کہاتھا؟ وہ ہم سب کو یہ بات سمجھا نا چاہتے تھے کہ شرعی حدود میں رہ کر دنیا کی کوئی مصروفیت غلط نہیں ،صرف اس پر غور کرنا چاہئے کہ کس وقت کیا کام کرنے کا ’’حکم‘‘ہے یعنی اگر ہمارے پاس زمین بہت زر خیز ہے تو ہمیں عوام کی بہبود کا خیال رکھتے ہوئے اس پر زراعت کرنی چاہئے۔
پھل سبزیاں، اناج ،دالیں اور مختلف اقسام کے پھلوں کو اگانا اور ان کی تجارت کرنی چاہئے تاکہ اپنے محلے والو ں ، شہر والوںاور پھر تمام ملک میں رہنے والوں کو سہولت بہم پہنچا سکیں۔ یہ بات ممکن ہے ہم اس امر کو یقینی بنائیں کہ کھیتوں پر کام کرنے والوں کیلئے نہ صرف گزر اوقات کیلئے اچھا محنتانہ انہیں دیا جانا چاہئے بلکہ دکھ تکلیف میں انہیں سہارا دینا چاہئے تاکہ وہ جب محنت کریں تو اسکا اچھا صلہ بھی پائیں۔ پھر زمین پر تمام ضروری نگرانی کو یقینی بنانا چاہئے کہ چاول کی فصل جب ہو تو اسکی بہترین طور پر بوائی میں اچھے چاول ہونے چاہئیں کیونکہ ترقی کے نام پر جو چاول آجکل اُگائے جارہے ہیں انہیں اگلے سال اگانے کیلئے کوئی سلسلہ باقی نہیں بچتا۔ وہ حیرانگی سے شکل دیکھنے لگی کہ میری وہ بات کو نجانے کس کس جہانوں میں گھمانے لگے کہ میری دلجوئی ہوسکے ۔ میری یہ فرمائش بالکل بیکار تھی اور اپنے علاوہ اور لوگو ں کی بھلائی کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ کہنے لگی پھر آپ لوگوں نے کیا کہا؟ وہ بتانے لگا کہ تمہیں ان کھیتوں میں کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہوگا جو کہ چچا جان کی توجہ سے بڑے ہرے بھرے قطعات میں تبدیل ہورہے ہیں ۔
اب اس گرمی کی چھٹیوں میں جب موقع ملے تو ہفتہ بھر کے قیام کیلئے ہم سب مل کر چلیں گے ۔وہاں مزارعوں کیلئے رہائشی بلاک بنانے کا کام بھی شروع ہونے والا ہے۔ ان کے بچوں کیلئے مدرسہ و اسکول بھی ہونگے۔ ہم لوگوں نے تو کرکٹ ، ہاکی کے کھیل کے ساتھ فٹبال کی ٹیم بھی بنالی ہے اور سچ پوچھو تو فٹ بال ہمارے یہاں محلے، گلی ، سڑکوں اور دور دراز علاقوں سب جگہ آسانی سے کھیلی جارہی ہے۔ اسکا مستقبل بھی آئندہ ضرور بہترین ٹورنامنٹ کی صورت میں نکلے گا۔ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ ہم چند برسوں سے جو کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیب اور سیل فون پر تمام وقت ضائع کررہے ہیں ،انہیں صرف ضروری کام کیلئے استعمال کریں پھر ان چیزوں کو اپنے آپ سے دور کردیں کیونکہ یہ نہ صرف ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ ان سے ہماری صحت بھی خراب ہورہی ہے ۔ان کی شعاعیں بے حدخطرناک ہیں۔ میں اپنا مسئلہ پھر بتانے لگی کہ ہم لڑکیاں کونسا کھیل کھیلیں کہ ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوسکے۔ وہ فلسفی کی طرح سنجیدہ چہرہ بناکر سمجھانے لگا۔
ہمشیرہ صاحبہ! آپ نے دادا جان کی طرف سے کئے جانے والے فیصلے کو سنا ہی نہیں۔ آج انہوں نے آپ کی دلجوئی کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ وہ حیرت سے پوچھنے لگی، کون سے اقدامات؟ بھئی آپ تمام لڑکیوں کیلئے ایک ایکڑ زمین پر چاروں طرف اونچے سبز رنگ کی مضبوط جالی لگوانے اور اس میں گھاس کے مربع قطعات بنانے اور مختلف کھیلوں کرکٹ، فٹبال اور لان ٹینس وغیرہ کا اہتمام کیا جائے گا۔ چند ماہ بعد وہ بے انتہاء خوش تھی کہ ہر محلے ،شہر اور ملک کو چاہئے کہ ایسے ہی صحت مند مقابلے منعقد کرائے۔ لڑکیوں کوپڑھائی لکھائی اور گھریلو دستکاری بھی سیکھنی چاہئے اور کھیل کود میں حصہ بھی لینا چاہئے۔ بس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ڈگری بڑی حاصل کرلی تو نوکری لازمی کرنی ہے۔ علم تو دراصل زندگی کو بہترین طریقے سے گزارنے کا شعور اجاگر کرتا ہے۔ اس میں زندگی کا ہر شعبہ داخل ہے۔