Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خون عطیہ کرنے کا فراڈ، لاہور میں برسوں سے سرگرم ملزم گرفتار

متاثرین نے پولیس کو بتایا کہ ملزم رقم وصول کرنے کے بعد فون بند کر لیتا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے صوبائی دارالحکومت لاہور سے ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جو کئی برسوں سے لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کا جھانسہ دے کر رقم بٹور رہا تھا۔
لاہور کے ایک رہائشی محمد اسماعیل کی والدہ ہسپتال میں داخل تھیں اور انہیں خون کی اشد ضرورت تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے سوشل میڈیا پر کئی فورمز پر خون کے عطیے کی اپیل کی اور اپنا نمبر بھی درج کیا۔ ابھی انہیں پیغام درج کیے تھوڑا وقت ہی ہوا تھا کہ ان کے فون کی گھنٹی بجی۔
محمد اسماعیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جیسے ہی میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے بات کرنے والے شخص نے اپنا تعارف منیب محمود کے نام سے کروایا اور کہا کہ ان کا تعلق لاہور کے علاقے دھرم پورہ سے ہے اور ان کا بھی وہی خون کا گروپ ہے جو میری والدہ کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک غریب شخص ہے اور ہسپتال آنے تک کے پیسے بھی نہیں۔ اس نے مجھ سے تین ہزار روپے ایزی پیسہ کروانے کے کہا۔‘
فون پر ہی محمد اسماعیل نے اس شخص کو بتایا کہ ان کے اکاؤنٹ میں صرف 2200 روپے ہیں جو وہ ابھی بھیج سکتے ہیں۔ اس کے بعد اس شخص نے اپنا ایزی پیسہ کا موبائل نمبر بھیجا۔ پیسے فوری طور پر منیب نامی شخص کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیے گئے۔
یہاں سے ہی کہانی کا تکلیف دہ پہلو سامنے آتا ہے۔ جب محمد اسماعیل کو موبائل پر پیغام آیا کہ ان کے بھیجے ہوئے پیسے نکلوا لیے گئے ہیں۔
اس پیغام کے تھوڑی دیر بعد ہی منیب نے خود فون کر کے بتایا کہ پیسے نکلوا لیے ہیں اور اب وہ ہسپتال آر ہے ہیں۔ محمد اسماعیل مطمئن ہو گئےاور ڈاکٹروں کو بھی بتا دیا کہ خون کا بندوبست ہو گیا ہے۔ جب ایک گھنٹہ گزر گیا اور منیب ہسپتال نہ پہنچا تو انہیں محمد اسماعیل نے کال کی۔
محمد اسماعیل نے بتایا کہ ’جب میں نے کال کی تو نمبر بند تھا۔ میں نے دو تین بار کوشش کی تو نمبر بند ملا۔ پھر میں نے اس نمبر پر کال کی جس پر رقم بھجوائی تھی تو وہ بھی مسلسل بند تھا۔ میرے لیے یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال تھی، میری والدہ کو خون کی اشد ضرورت تھی اور ڈاکٹر بار بار خون کا پوچھ رہے تھے۔ پھر نے ڈاکٹروں کو ساری صورت حال بتائی۔ انہوں نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے خود ہی خون کا بندوبست کر لیا۔ لیکن اس صورت حال سے میرے کرب میں دو گنا اضافہ ہو گیا۔‘
رقم اتنی تھوڑی تھی کہ اسماعیل کو لگا کہ اب اس میں کیا قانونی کارروائی کرنی ہے۔ البتہ انہوں نے اپنی کہانی سوشل میڈیا پر انہی گروپس میں لکھ دی جہاں انہوں نے خون کے عطیے کی اپیل کی تھی۔
اس کے بعد صورت حال بدل گئی اور ایسے بہت سے لوگ سامنے آنا شروع ہو گئے جن کی تکلیف سے منیب نامی شخص نے ایسے ہی فائدہ اٹھایا تھا۔
اسد نامی ایک شخص کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ درجن سے زائد متاثرین سامنے آنے پر بات پولیس تک پہنچ گئی اور منیب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسد بتایا کہ اس شخص نے دوسال پہلے یہی کیا تھا۔ ’ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اس کو پکڑنے کی ٹھانی اور ہم نے اس کو پکڑ لیا۔ اس کے بعد اس نے بہت معافی مانگی جس کو ہم نے ویڈیو پر ریکارڈ کر لیا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ آئندہ نہیں کرے گا۔‘
پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ دو بار لوگوں نے اس کو پکڑا اور ویڈیوز ریکارڈ کر معافی منگوا کر چھوڑ دیا۔
لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق ’لوگ اس کے خلاف قانونی کارروائی اس لیے نہیں کرتے تھے کہ رقم بہت تھوڑی ہوتی تھی۔ کسی سے ہزار کسی سے دو ہزار، کسی سے پندرہ سو روپے لیے گئے اور لوگ اتنی سی رقم کے لیے خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے رہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کئی برس سے سوشل میڈیا پر سرگرم یہ شخص خون کا عطیہ دینے کے جھانسے میں بڑی تعداد میں لوگوں سے رقم بٹور چکا ہے۔ مقدمہ درج کر کے تفتیش کی جا رہی ہے اور تمام متاثرین سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق اب تک کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ منیب سوشل میڈیا پر خون عطیے کے بہانے ضرورت مند لوگوں سے پیسے بٹور کر اپنا رابطہ نمبر بند کر دیتا تھا۔

شیئر: